Get Alerts

'پرویز الہیٰ بند گلی میں، فیصلہ لینا مشکل ہو گیا'

'پرویز الہیٰ بند گلی میں، فیصلہ لینا مشکل ہو گیا'
پرویز الہیٰ اور عمران خان کا اتحاد ختم ہو گیا ہے۔ مستقبل کی سیاست میں ان کے اتحاد کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جو باتیں پرویز الہیٰ نے اپنے انٹرویو میں کر دی ہیں اس کے بعد کوئی گنجائش نہیں رہی۔ شہباز شریف کے بارے میں گفتگو کر کے پرویز الہیٰ نے اپنے لیے حالات مزید خراب کر لیے ہیں اس لیے پرویز الہیٰ کے پاس اب دونوں گھر نہیں ہیں۔ پرویز الہیٰ کے پاس اس وقت عمران خان اور (ن) لیگ دونوں نہیں ہیں۔ اگر اسمبلی توڑتے ہیں تو عمران خان ان کے پیچھے پڑ جائیں گے اور اگر اسمبلی نہیں توڑتے تو پھر بھی پی ڈی ایم ان کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ دونوں اتحاد میں ان کے پاس کوئی جگہ نہیں ہے۔ اگر 'پنڈی' والے کوئی ایسا جادو کریں کہ پرویز الہیٰ کی وزارت اعلی بھی بچ جائے، پی ڈی ایم کے سب لوگ بھی سرنگوں ہو جائیں تو ایسی صورت میں 'پنڈی' کے علاوہ کسی کے پاس یہ طاقت نہیں ہے، یہ گفتگو کر رہے تھے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مزمل سہروردی۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں اظہار خیال کرتے ہوئے مزمل سہروردی کا مزید کہنا تھا کہ چوہدری برادران کے درمیان اصل مسئلہ گجرات کی سیٹوں کا ہے۔ چوہدری وجاہت اور فیملی کے باقی افراد کہتے ہیں کہ چوہدری شجاعت کے بچوں کا گجرات میں اب کوئی حصہ نہیں ہے۔ فیملی کے اندرونی حالات اب گجرات کی سیٹوں کی ایڈجیسٹمنٹ پر انحصار کر رہے ہیں۔ مونس الہی فیملی کو لیڈ کرنا چاہ رہے ہیں۔ اگر سالک ، مونس اور حسین مل کر پریس کانفرنس کرکے بتائیں کہ ہم ایک پیج پر ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ حالات اب شجاعت، وجاہت اور پرویزالہی کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پرویز الہی کی اس وقت تک عمران خان کے لیے اہمیت ہے جب تک وہ پنجاب کی اسمبلی نہیں توڑتے، 40 سیٹیں تو دور کی بات ہے ، اس کے بعد توعمران خان پرویز الہی اور مونس الہی کو بھی ٹکٹ نہیں دیں گے۔ اگر پرویز الہی اسمبلی نہیں توڑتے تو عمران خان کے پاس یہ آپشن ہو گا کہ وہ اپنے اراکین اسمبلی کے استعفے دلوا دیں گے۔ مگراس کے باوجود اسمبلی نہیں ٹوٹے گی ، یا پھر وہ پرویز الہی کے خلاف پریس کانفرنس کریں گے اور پرویزالہی سے اپنی حمایت اٹھا لیں گے۔ عمران خان پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد نہیں لا سکتے کیوں کہ ان کے پاس نمبر پورے نہیں ہیں۔ اس لیے اس کے باوجود پرویز الہی بدستور وزیر اعلی رہیں گے۔

سینئیر تجزیہ کار مرتضی سولنگی نے کہا کہ وفاقی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ اسمبلی نہ ٹوٹے اوراس کی بجائے ایک اور رجیم چینج ہو جائے۔ حکومتی جماعتیں پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کروا دیں گی۔ اس کے بعد آئین کے تحت گورنر کو اعتماد کا ووٹ لینے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ایسی صورتحال میں وزیر اعلی کو اپنے لیے 186اراکین کی تعداد کو پورا کرنا پڑے گا۔

میز بان رضا رومی نے کہا کہ پرویز الہی کو لگتا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت سے ان کو فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویز الہی اس وقت بند گلی میں آ چکے ہیں جہاں پر اب ن لیگ بھی ان کو پھر سے قبول نہیں کرے گی۔انہوں نے کہا کہ ن لیگ کی یہی پالیسی نظر آتی ہے کہ اگر پنجاب جاتا ہے تو جائے مگر نواز شریف ان کو پھر سے قبول نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویز الہی اب بھی اچھے وزیراعلی ہیں اور ماضی میں بھی اچھے وزیراعلی رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پرویز الہی نے ماضی میں پنجاب میں کافی ترقیاتی کام کروائے ہیں۔

صحافی افتخار فردوس نے کہا کہ بنوں کے بارے میں کافی غلط خبریں چل رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دوبارہ حالات اس مقام کی طرف جارہے ہیں کہ جب تک افغانستان کی صورتحال ٹھیک نہ ہو یہاں پر بھی حالاات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ بنوں کے موجودہ حالات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ بنوں کے کینٹ ایریا میں داخل ہونا اور کاروائی کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ اصل معاملہ یہ ہوا ہے کہ گرفتار دہشتگردوں کی سی- ٹی- ڈی کے اہلکار تفتیش کررہے تھے کہ گرفتار افراد میں سے ایک دہشت گرد نے بندوق اٹھا کر باقی لوگوں کو یرغمال بنا لیا۔ اس کے بعد فوج کے کچھ لوگ بھی تفتیش کے لیے آ رہے تھے اوران کو بھی یرغمال بن لیا گیا۔ اس واقعے کے بعد سیکورٹی فورسز کی طرف سے کینٹ ایریا کو سیل کر دیا گیا۔ تحریک طالبان نے ان گرفتار افراد کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعلان کر دیا ہے۔ گرفتار افراد کا مطالبہ ہے کہ ان کو افغانستان تک محفوظ راستہ دیا جائے۔ مگر ٹی ٹی پی نے کہا ہے کہ ان لوگوں کو جنوبی یا شمالی وزیرستان بھیج دیں- سیکورٹی فورسز کی جانب سے دو آپشن دیے گئے ہیں کہ سرنڈر کردیں یا پھر آپریشن کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔

افتخار فردوس کا کہنا تھا کہ پولیس سب سے زیادہ ٹارگٹ ہو رہی ہے مگر پولیس کی قیادت کی طرف سے اب تک کوئی واضح پالسی نظر نہیں آ ئی۔ پولیس کے مطابق ان کے پاس دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملکی سیاسی حالات کی وجہ سے واضح قومی پالیسی کا فقدان ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوام حکومت اور طلبان دونوں سے بیزار ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت سیکورٹی کی زمہ داری لینے کی بجائے سارا الزام سیکورٹی فورسز پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔