سقوطِ ڈھاکہ سے جڑے 5 بڑے مغالطے اور ان کی حقیقت

'1971 میں کمانڈر ایسٹرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی کے مطابق ان کے پاس فوج کے مجموعی طور پر 34 ہزار افسر اور سپاہی تھے۔ باقی پولیس، سول آفیسر، سٹاف اور خواتین اور بچے رہ جاتے ہیں۔ ان کو ملا کر تحویل میں لیے جانے والوں کی تعداد درست ہو سکتی ہے۔ تاہم یہ کہنا کہ 93 ہزار فوجیوں کو قیدی بنایا گیا، سراسر جھوٹ پر مبنی ہے'۔

سقوطِ ڈھاکہ سے جڑے 5 بڑے مغالطے اور ان کی حقیقت

16 دسمبر کو بنگلہ دیش اپنی آزادی کی گولڈن جوبلی مناتا ہے۔ نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کے حوالے سے جو پراپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے وہ اتنا پراثر ہے کہ آج اصل حقائق کہیں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔

ذیل میں پانچ بڑے مغالطوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے جن کے بارے میں بہت سے پاکستانی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ درست ہیں۔

90 ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے تھے

ایک بڑا مغالطہ تو یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں 90 ہزار پاکستانی فوجیوں نے ہتھیار ڈالے تھے۔ اس حوالے سے شرمیلا بھوس جو کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں اور بھارت کے قومی رہنما سبھاش چندر بھوس کی پوتی ہیں، وہ اپنی کتاب 'ڈیڈ ریکننگ' میں لکھتی ہیں کہ '1971 کے اعداد و شمار میں 93 ہزار پاکستانی فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کے معاملے پر اس قدر تکرار کی گئی ہے کہ تقریباً اب یہ ناقابل تردید شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اس تعداد کے بارے میں سب مغالطے کا شکار ہیں۔ بھارت کے پاس جنگی قیدیوں کے بارے میں اعداد و شمار درست ہونے چاہئیں تاہم ایسا نہیں ہے۔ مارچ 1971 میں مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے سپاہیوں کی کل تعداد 12 ہزار تھی۔ نازک صورت حال سے نمٹنے کے لیے مزید دستے لائے گئے۔ 1971 میں کمانڈر ایسٹرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی کے مطابق ان کے پاس فوج کے مجموعی طور پر 34 ہزار افسر اور سپاہی تھے۔ باقی پولیس، سول آفیسر، سٹاف اور خواتین اور بچے رہ جاتے ہیں۔ ان کو ملا کر تحویل میں لیے جانے والوں کی تعداد درست ہو سکتی ہے۔ تاہم یہ کہنا کہ 93 ہزار فوجیوں کو قیدی بنایا گیا، سراسر جھوٹ پر مبنی ہے'۔

کیا واقعی شیخ مجیب کو اقتدار دینے سے پاکستان بچ سکتا تھا؟

ایک عام تاثر یہی ہے کہ اگر1971 کے عام انتخابات میں عوامی لیگ کو برتری پر اقتدار دے دیا جاتا تو پاکستان بچایا جا سکتا تھا۔ لیکن کسی کو نہیں معلوم کہ شیخ مجیب کے وہ 6 نکات کون سے تھے جن کی وجہ سے انہوں نے انتخابات جیتے تھے۔ ان میں الگ الگ کرنسی اور بینکنگ سسٹم، زرمبادلہ کے الگ اکاؤنٹس، دوسرے ممالک سے تجارت میں خودمختاری، الگ الگ فوج ہو گی اور وفاق کے پاس صرف محدود دفاع اور خارجہ امور شامل تھے۔

اب اگر عوامی لیگ اپنے منشور پر عمل کرتی تو مشرقی پاکستان کے علاوہ مغربی پاکستان بھی کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتا۔ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کے مطابق 'بھارت کی مشرقی پاکستان میں ریاست مخالف عناصر کے ساتھ ملی بھگت کی براہِ راست شہادت اس وقت سامنے آئی جب 1967 میں اگرتلہ سازش کیس افشا ہوا۔ مشرقی پاکستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کے لیے ایک تنظیم بنائی گئی اور شیخ مجیب اس سے منسلک ہو گئے تھے۔ بھارت نے ناصرف مشرقی پاکستان میں بغاوت منظم کرنے کے لیے اسلحہ اور مالی امداد دینے کا وعدہ کیا بلکہ اس نے یہ ہامی بھی بھری کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کے فضائی اور سمندری راستے بھی بند کر دے گا۔

معروف سفارت کار افراسیاب مہدی ہاشمی اپنی کتاب 'سقوطِ ڈھاکہ، کتنی حقیقت کتنا افسانہ' میں لکھتے ہیں کہ 'بنگلہ دیشی اخبار ڈیلی سٹار کے 14 اگست 2012 کے شمارے میں عوامی لیگ کے تجزیہ نگار بدرالاحسن نے لکھا کہ 1950 میں شیخ مجیب جو اس وقت ایک نوجوان سیاست دان تھے، نے متحدہ پاکستان کے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی جو خود بھی بنگالی تھے، سے ایک سوال پوچھا، 'کیا مشرقی پاکستان کے لیے کسی دن آزادی حاصل کرنا ممکن ہو گا؟'

اس پر وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے مجیب کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا، 'کبھی ایسے خیالات کو اپنے ذہن میں مت لانا۔ پاکستان ایک بہت بھاری قیمت ادا کر کے حاصل کیا گیا ہے اور اس کو متحد رکھنا ہمارا فرض ہے'۔

مجیب بڑبڑائے اور بولے، 'جب وقت آیا، ہم اپنا کام کر دکھائیں گے'۔

30 لاکھ لوگ قتل ہوئے؟

بنگلہ دیش کی تحریک میں 30 لاکھ لوگوں کی ہلاکت اور 2 لاکھ خواتین کی بے حرمتی کی تعداد سب سے پہلے اس وقت سامنے آئی تھی جب شیخ مجیب پہلی بار پاکستان سے جیل سے رہا ہو کر پہلے برطانیہ گئے اور وہاں سے براستہ بھارت بنگلہ دیش پہنچے تھے۔

انہوں نے جنوری 1972 میں ڈھاکہ میں بیان دیا، 'آزادی کے دوران ہمارے 30 لاکھ لوگ قتل ہوئے۔ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی تحریک آزادی میں اتنی بھاری جانوں کی قربانی دی گئی ہو'۔

دنیا کے کئی آزاد اداروں، صحافیوں اور مصنفین نے اس تعداد کو مبالغہ قرار دیا ہے۔ ناروے کے پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی تحریک کے دوران مرنے والوں کی تعداد 58 ہزار تھی، جبکہ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ میں یہ تعداد 26 ہزار بتائی گئی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ خود بنگلہ دیش کی حکومت نے جنوری 1972 میں مرنے والوں کی درست تعداد معلوم کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی جس کے سربراہ ایک ڈپٹی آئی جی پولیس تھے۔ لیکن اس کمیٹی کی کوئی رپورٹ آج تک سامنے نہیں آ سکی۔ شاید اس لیے کہ مرنے والوں کی اصل تعداد 30 لاکھ کے ہندسے سے کوسوں دور تھی۔

بنگالی صحافی تجمل حسین جو ڈھاکہ اور اوکلاہوما یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں، لکھتے ہیں کہ اگر 30 لاکھ کی تعداد کو درست مان لیا جائے تو اس حساب سے 25 مارچ سے 16 دسمبر تک 9 ماہ میں 267 دن بنتے ہیں، یعنی ہر روز 11236 لوگ مارے گئے۔ اس سے بڑا مبالغہ اور کیا ہو سکتا ہے؟

2 لاکھ بنگالی خواتین کا ریپ ہوا؟

30 لاکھ لوگوں کے قتلِ عام کی طرح 2 لاکھ بنگالی خواتین کے ریپ کی کہانی بھی شیخ مجیب الرحمٰن نے شروع کی تھی۔ اس کا پردہ بھی اس وقت چاک ہوا جب شیخ مجیب نے خود برطانیہ سے درخواست کی کہ 'پاکستانی فوج نے 2 لاکھ خواتین کی بے حرمتی کی ہے، اس لیے وہ خصوصی ٹیمیں بنگلہ دیش بھیجے تاکہ ان خواتین کا اسقاطِ حمل کروایا جا سکے'۔

جب برطانیہ سے ٹیم آئی تو ان کے پاس اسقاطِ حمل کے صرف 100 کیس آئے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے 'ادھر ہم ادھر تم' کا نعرہ لگایا تھا؟

دراصل یہ الفاظ ذوالفقار علی بھٹو کے نہیں، بلکہ اس زمانے کے ایک اخبار روزنامہ 'آزاد' کی سرخی ہے جو مشہور صحافی عباس اطہر کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔

یہ 1970 کے اوائل کی بات ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے انتخابات ہوئے تھے، جن میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں بھاری اکثریت حاصل کی تھی، جبکہ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کو برتری ملی تھی۔ ابھی جب انتقالِ اقتدار کے سلسلے میں بات چیت چل رہی تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک جلسے میں شیخ مجیب کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر مشرقی پاکستان میں آپ نے اکثریت حاصل کی ہے تو مغربی پاکستان میں ہماری اکثریت ہے۔

اسی بات کا خلاصہ عباس اطہر نے 'ادھر ہم ادھر تم' کی شکل میں بیان کیا، لیکن اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ بھٹو نے یہ کہا تھا کہ مشرقی پاکستان میں تمہاری حکومت بنے اور مغربی میں ہماری، یعنی اس سے ملک توڑنے کا اشارہ ملتا ہے، حالانکہ بھٹو کا مطلب کچھ اور تھا۔

**

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

سجاد اظہر معروف صحافی اور مصنف ہیں۔