’ریلوے میں ایک ایسے بندے کو سربراہی دی گئی جس پر نیب کے چھ کیسز ہیں‘

’ریلوے میں ایک ایسے بندے کو سربراہی دی گئی جس پر نیب کے چھ کیسز ہیں‘
اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے اجلاس میں سینیٹر مشتاق احمد نے اپنی پیٹیشن پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ کہ افسوس کی بات ہے کہ ادارے وقت پر ورکنگ پیپر فراہم نہیں کرتے اور میں نے 20 ستمبر 2019 کو جو سوال اٹھایا تھا اُس کا جواب نہیں دیا گیا۔

سینیٹر مشتاق نے کہا کہ سی ای او کی تقرری کے لئے وزیراعظم کو چھ نام بھیجے گئے مگر جونیئر موسٹ بندے کو سلیکٹ کی گیا جو تین ماہ بعد ریٹائر ہو گیا۔ اُس کے بعد بھی ایک اور جونیئر کو سی ای او بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سعید خان ایک قابل اور میرٹ پر آنے والا افسر تھا، اُس کی تقرری نہیں کی گئی جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ سعید خان نے ایسٹ ڈیکلیئریشن فارم جمع نہیں کرایا تھا اور اُن کی اے سی آر بھی 2016 سے 2018 تک نہیں بھیجی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ وزارت ریلوے میں گذشتہ دو سالوں کے دوران گریڈ 20 اور 21 میں کی گئی پروموشنز کی تفصیلات کمیٹی کو فراہم کی جائیں۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد اسد علی خان جونیجو نے کہا کہ وزارت کمیٹی کو آگاہ کرے کہ جن لوگوں کے نام وزیراعظم کو بھیجے جاتے ہیں، منتخب نہ ہونے والوں کی کیا وجوہات ہوتی ہیں۔



سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ وزیر ریلوے نے ہاؤس کے فلور پر کہا کہ ریلوے کے گریڈ 22 کا افسر سعید خان چور ہے اور ان پر نیب کے کیسز ہیں، اگر ایسا نہیں تھا تو میرے خلاف تحریک استحقاق جمع کرا دیں جس پر سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ وزارت ریلوے کے افسر سعید خان اج بھی ریلوے میں گریڈ بائس کے افسر ہیں مگر وزیر نے یہ نہیں بتایا کہ ایک کرپٹ افسر وزارت میں کیا کر رہے ہیں۔ اگر اج وہ اجلاس میں ہوتے تو میں ضرور پوچھتا کہ سعید خان کو تو قومی احتساب بیورو نے صاف قرار دیا جب کہ آپ نے جس افسر کو لگایا ان پر نیب کے چھ کیسز ہیں اور وزارت کے اندر بھی کرپشن کی ایک انکوائری ان پر چل رہی ہے۔

سینیٹر مشتاق احمد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ ریلوے کے موجودہ سربراہ امریکن شہری ہیں اور آٹھ سال باہر گزار کر وہ ملک واپس آئے ہیں جبکہ دوسری جانب میرٹ پر آئے لوگوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

وزارت ریلوے نے ایک سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ریلوے کو اس وقت پنشن کی ادائیگیوں، بجلی اور دیگر اخراجات میں چار ارب خسارے کا سامنا ہے اور اگر حکومت نے یہ وزارت کو یہ سبسڈی ادا نہیں کی تو ریلوے میں مسائل کھڑے ہوجائیں گے۔

تیز گام حادثے میں جلنے والے لوگوں کی شناخت پر بات کرتے ہوئے حکام نے واضح کیا کہ وہ لوگ مکمل طور پر جل چکے ہیں اور لیبارٹری نے بتایا کہ ہمارے پاس ایسی کوئی ٹیکنالوجی نہیں جو راکھ کے ڈی این اے سے تشخیص کر سکے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔