نیب ترامیم فیصلے کیخلاف اپیل، نیب عدالتوں کو زیرسماعت مقدمات کے حتمی فیصلے سے روک دیا گیا

چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا۔ ہوسکتا ہے اس فیصلے میں اس نکتے پر بھی فیصلہ موجود ہو۔ ایسی صورت میں ہم اس کیس کو آج نہیں چلا سکتے۔ ٹرائل کورٹ کے جج پر تشریحات کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔ ٹرائل کورٹ کے جج کو صرف ٹرائل تک رکھنا چاہیے۔ آئندہ سماعت تک احتساب عدالتیں حتمی فیصلہ نہ سنائیں۔

نیب ترامیم فیصلے کیخلاف اپیل، نیب عدالتوں کو زیرسماعت مقدمات کے حتمی فیصلے سے روک دیا گیا

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کرتے ہوئے نیب عدالتوں کو زیرسماعت مقدمات کے حتمی فیصلے سے روک دیا۔ عدالت عظمیٰ نے  چیئرمین پی ٹی آئی، اٹارنی جنرل، اسلام آباد سمیت تمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کی۔ لارجر بینچ میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ وکیل مخدوم علی خان بیرون ملک ہیں، مخدوم علی خان نے التوا کی درخواست دی ہے۔ کچھ گزارشات پیش کر سکتا ہوں۔
درخواست میں موقف دیا گیا کہ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان بیرون ملک ہیں۔

مخدوم علی خان نے درخواست میں بتایا کہ میں 3 نومبر تک عدالتی رخصت پر ہوں اور 27 اکتوبر کو پیرس پہنچا ہوں جبکہ 28 اکتوبر کو نیب اپیل سماعت کے لیے مقرر ہونے کا پتہ چلا۔

درخواست گزار کے مطابق انہوں نے واپس آنے کی ٹکٹس حاصل کرنا چاہا لیکن تمام ٹکٹس فروخت ہو چکے تھے۔ پیرس سے 4 نومبر کو واپس آؤں گا لہٰذا کیس کی سماعت 6 نومبر سے شروع ہونے والے ہفتے تک ملتوی کی جائے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے کچھ اور درخواستیں بھی آئی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں عدالت کی معاونت کرنے کیلئے تیار ہوں۔

اسی دوران وکیل درخواست گزار فاروق نائیک بھی روسٹرم پر آ گئے۔   چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فاروق نائیک صاحب آپ عدالتی فیصلے کی حمایت یا مخالفت کر رہے ہیں؟ وکیل فاورق نائیک نے کہا کہ نیب ترامیم کیخلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کر رہا ہوں۔

وکیل فاروق نائیک نے عدالت کو بتایا کہ میں نے درخواستیں کچھ فریقین کی جانب سے دائر کی ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پہلے اس کیس میں آپ فریق نہیں تھے؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میرے مؤکل نیب ملزم ہیں۔ انہیں فریق بنائے بغیر یہ فیصلہ دیا گیا۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں نے 2 نظرثانی کی درخواستیں دی تھیں اور ایک اپیل دائر کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اپیل اور نظرثانی کا سکوپ الگ، الگ ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں نظر ثانی کی درخواستیں واپس لے کر اپیل کی پیروی کرنا چاہتا ہوں۔ میری گزارش ہوگی کہ اپیل میں مجھے سنا ضرور جائے۔

چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کے معاون وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ قانونی سوال ہے جب آپ فریق نہیں تو سنا کیسے جائے؟   چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سامنے کیوں نہیں کھڑے۔ اٹارنی جنرل کا شیلٹر کیوں لے رہے ہیں؟ بعد میں چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کے معاون وکیل کو درخواست پڑھنے کی ہدایت کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے لکھا نیب ترمیم کیس پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تحت 5 رکنی بینچ نے سننا تھا۔ آپ اس نکتے پر قائم ہیں تو پھر اس نکتے پر مطمئن کریں، اگر اس نکتے پر مطمئن کر لیا تو اپیل کے میرٹس پر نہیں جائیں گے۔ ایسی صورت میں ہم ترامیم کے خلاف درخواستیں بحال کر کے نیا بینچ بنا دیں گے یا پھر اس نکتے کو واپس لے لیں گے۔

وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ایسا نہ کریں۔ موجودہ اپیلیں ہی چلائیں۔ ایسا کیا تو نیب کورٹس میں مقدمات چلنا شروع ہو جائیں گے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھیں مخدوم علی خان نے اپنی درخواست میں یہ گراؤنڈ لے رکھی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ساری نیب ترامیم فیصلے سے اُڑ گئیں یا کچھ بچی ہیں؟ اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جو تیسری ترامیم آئیں انہیں چھیڑا ہی نہیں گیا۔ پہلی اور دوسری ترامیم میں سے کچھ ختم کر دی گئیں کچھ باقی ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اکثریتی فیصلے میں جس گراؤنڈ پر انحصار کیا گیا ہے اس کا تیسری ترامیم سے تعلق ہے۔ تیسری ترامیم کو چھیڑے بغیر وہ فیصلہ کیسے کر سکتے تھے؟

معاون وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پہلی ترامیم کو چیلنج کیا گیا تو دوسری ترامیم آئیں۔پھر درخواست گزار نے درخواستوں میں ترامیم کیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ تیسری ترمیم کب آئیں؟ جس پر معاون وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تیسری ترمیم مئی 2023ء میں آئی ہیں۔

چیف جسٹس نے اس پر ریمارکس دیے کہ پھر تو کافی وقت تھا تیسری ترمیم پر بھی، درخواست گزار اپنی درخواست بدل سکتا تھا۔ پھر تو یہ بات درست ہے کہ اگر ترامیم کالعدم ہونا تھیں تو تیسری ترمیم بھی کالعدم ہونا تھیں۔ فیصلے میں اگر تیسری ترامیم کا ذکر ہے تو پھر ان پر فیصلہ بھی ہونا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تحت نیب ترامیم کیس 5 رکنی بینچ کو ہی سننا چاہیے تھا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل معطل ہوا تھا۔ ایکٹ کبھی معطل نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا۔ ہوسکتا ہے اس فیصلے میں اس نکتے پر بھی فیصلہ موجود ہو۔ ایسی صورت میں ہم اس کیس کو آج نہیں چلا سکتے۔ ٹرائل کورٹ کے جج پر تشریحات کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔ ٹرائل کورٹ کے جج کو صرف ٹرائل تک رکھنا چاہیے۔

عدالتی حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ آئندہ سماعت تک احتساب عدالتیں حتمی فیصلہ نہ سنائیں۔

بعدازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا آرڈر لکھوانا شروع کر دیا۔

حکمنامے میں لکھوایا گیا کہ عدالت کو بتایا گیا پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی شق 4کے تحت جہاں آئینی تشریح کا معاملہ ہو 5 ججز سے کم کیس نہیں سن سکتے اور بتایا گیا پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو آئین کے مطابق بنایا گیا۔ سعد ہاشمی نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو درست قرار دے چکی ہے۔ معاون وکیل سعد ہاشمی مخدوم علی خان کے جونیئر عدالت میں پیش ہوئے۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ یہ مناسب ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تفصیلی فیصلے کے بعد نیب انٹرا کورٹ اپیل سماعت کے لیے مقرر کی جائے۔ یہ عدالت فیصلہ کر چکی ہے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا ابھی تفصیلی فیصلہ لکھا نہیں گیا۔

سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 15 ستمبر کو دو ایک کے تناسب سے فیصلہ سنایا تھا۔ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے۔