Get Alerts

خان صاحب کو تاریخ یا جغرافیہ کا استاد ہونا چاہیے

خان صاحب کو تاریخ یا جغرافیہ کا استاد ہونا چاہیے
خان صاحب نے جب سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو بہت سے لوگ ان کے اس فیصلے کے مخالف تھے۔ ان لوگوں کے خیال میں عمران خان کو ایک کرکٹ ہیرو بننے کے بعد اپنی شخصی قدر و قیمت کو سیاست کے گندے میدان میں کھیل کر ہر گز نہیں گنوانا چاہیے تھا۔ پر جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ خان صاحب میدان سیاست میں ہنسی خوشی داخل ہوئے، پھر وہاں کے صبرآزما نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے آخر اس سنہرے کنارے پہنچ گئے جس کو مسند اقتدار کہتے ہیں۔

رکیے! یہ سفر یہاں ختم نہیں ہوا، بلکہ وہ احساس سرفرازی سے سرشار لوگوں کی امیدیں پھلانگتے ہوئے اب اس مقام پر بھی کامیابی سے براجمان ہو گئے جہاں پر کم وبیش تمام ملکی سیاسی رہنما صاحب اقتدار ہونے کے بعد پائے جاتے ہیں۔

اس پرآزمائش سفرمیں کرکٹ کے شیدائی جہاں کرکٹ کے یونانی دیوتا کی بے توقیری ہوتی دیکھ کر دل ہی دل تلملا رہے ہوتے ہیں وہاں ہم جیسے کرکٹ سے تھوڑا دور رہنے والے بے شمار لوگ جانے کیوں خان صاحب کی ان پوشیدہ خوبیوں کے متعرف ہو گئے ہیں جو خان صاحب کی وزارت عظمیٰ کی تقاریر کے دوران عوام پر افشا ہوئیں۔



جی ہاں، اگر آپ کو اپنے تعلیمی ادوار میں تاریخ یا جغرافیہ کے سبجیکٹ میں کوئی دقت پیش آتی رہی ہو تو آپ بھی بلاشبہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے دل میں یہ حسرت رہتی ہو گی کہ کاش خان صاحب ہمارے جغرافیہ یا تاریخ کے استاد ہوتے۔ نہ جغرافیہ کے ملکی وغیر ملکی حدود اربع کو رٹا لگانے کی جھنجھلاہٹیں ہوتیں اور نہ تاریخ کے چیدہ چیدہ سنہ کی بوٹیاں لگا کراپنی آخرت پر منڈلاتے خطرات سے پالا پڑتا۔

ہے تو دل کی چاہ ہی پر اگر ہم بدںصیبوں کو خان صاحب کی شاگردی کا شرف ملتا تو ہمارا جب من چاہتا انگریزوں کو برضعیر کا تفریحی دورہ کرا کر رخصت کرا دیتے اور جب دل چاہتا کشمیر کی سرحدوں کو سوئٹزر لینڈ جیسے امن پسند ملک کی سرحدوں سے جوڑ کر ایک نسل کے لوگوں کا جینا آسان کر دیتے۔ آرکڈیوک فرانز فرڈنینڈ کے قتل کی دیت لواحقین کو دلوا کر دنیا کو پہلی جنگ عظیم کے خون خرابے سے محفوظ کر لیتے تو محمد بن قاسم کو امریکہ بھیج کر ان کی فسطایئت کو ان کی اپنی سرزمین پر شکست دے دیتے۔ اپنے پسماندہ علاقوں کو یورپ منتقل کرا کر یورپ کے حسین ترین شہروں کو اپنی سرزمین کا حصہ بنانا بھی اپنے دائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا۔



اور تو اوراپنے سانولے رنگ کی پریشانی کو چٹے دودھ انگریزوں کو افریقی ممالک کا مقامی باشندہ بنا کر ختم کر دیتے۔

اگر سائنس کے طلبہ حسرت کا سامان دل میں لیے یہ غور سے پڑھ رہے ہیں تو ان کو بھی ہرگز دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ بھی خان صاحب کی استادی میں نیوٹن، ڈارون اور مینڈل جیسے سائنسدانوں کے قوانین سے اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق چھیڑ چھاڑ کر امتیازی نمبروں سے پاس ہو سکتے ہیں۔

پر اس سہولت سے سیاست کے وہ ایک دو طالب علم ہر گز مستفید نہیں ہو سکتے جن کے سامنے ایک آدھ جمہوری سوال آ جائے تو ڈھٹائی سے سیدھا سیدھا جواب لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ جس سے نہ تو صرف ان کا پاس ہونا محال ہو جاتا ہے بلکہ سزا ملنے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ دراصل ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ایسے پرچے ہیڈماسٹر بقلم خود چیک کرتے ہیں جن کے پاس ڈنڈا بھی ہوتا ہے۔

لکھاری ایک نجی چینل سے وابستہ ہیں۔