چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے وکلا کی جانب سے عدالت کو درخواست کی گئی کہ عمران خان کی حاضری احاطہ عدالت میں ان کی گاڑی میں ہی لگوالی جائے کیونکہ رش کے باعث ان کا کمرہ عدالت میں پیش ہونا ممکن نہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے حفاظتی ضمانت سے متعلق کیس میں عمران خان کو پانچ بجے تک پیش ہونے کی مہلت دی تھی جس کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی تقریبا 6 بجے عدالت پہنچے۔
جسٹس باقر علی نجفی اور جسٹس سید شہباز علی رضوی نے سماعت شروع کر دی۔ سیکورٹی انچارج ایس ایس پی کو عمران خان کو 5 منٹ میں کمرہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا گیا۔
سماعت کا احوال
لاہور ہائی کورٹ میں دستخط میں فرق کے معاملے میں عمران خان کی عدالت پیشی کےکیس کی جسٹس طارق سلیم شیخ سماعت نے کی۔ عمران خان کے وکیل نے ٹریفک کی وجہ سے تاخیر سے پیش ہونے پر معذرت کرتے ہوئے اپنے دلائل پیش کیے۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عدالتی حکم کےمطابق سیکیورٹی معاملات کے لیے آئی جی سے ملاقات کی۔ ہم نے عمران خان کی آمد پر مال روڈ کو کلیئر کرنے کا کہا ۔رجسٹرار ہائیکورٹ نے مسجد گیٹ سے عمران خان کی گاڑی کو آنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔
عدالت نے عمران خان کو پیش ہونے کا آخری موقع دیتے ہوئے شام 5 بجے طلب کرلیا۔
سماعت کے دوران عدالت نے پوچھا کہ درخواست گزار کدھر ہیں جس پر عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ سیکیورٹی خدشات کےباعث عمران خان کی گاڑی عدالت تک لانے کی اجازت کی درخواست جمع کرائی۔ رجسٹرار نے عدالت تک گاڑی لانے کی اجازت دینے کی درخواست مسترد کی۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ عمران خان عدالتی فیصلے پرعمل درآمد کےلئے عدالت پیش ہونا چاہتے ہیں۔ عدالت عمران خان کی گاڑی کو عدالت کےسامنے تک آنے کی اجازت دے۔
وکیل نے بتایا کہ عمران خان راستے میں ہیں پانچ منٹ تک پیش ہوجائیں گے جس پر عدالت نے کہا کہ عدالت نے دو بجے کا وقت رکھا تھا۔
وکیل نے کہا کہ عمران خان کی سیکیورٹی کےمسائل ہیں جس پرعدالت نے کہا کہ سیکیورٹی دینا پولیس کا کام ہے عدالت کا نہیں جس کے بعد عدالت نے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کی۔
دوران سماعت جسٹس طارق سلیم شیخ نے غیرمتعلقہ اشخاص کو کمرہ عدالت سے نکالنے کا حکم دیا۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے دلائل دیے کہ عمران خان عدالت میں پیش ہونے کو تیار ہیں۔ جس پر عدالت نے کہا کہ عدالت کسی کو خصوصی رعایت نہیں دے سکتی۔ آپ اپنی درخواست پر دلائل شروع کریں۔
وکیل عمران خان نے دلائل دیے کہ ہم اس حفاظتی ضمانت کو واپس لینا چاہتے ہیں جس جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ عدالت اس حوالے سے پہلے ہی فیصلہ جاری کرچکی ہے۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ عدالت کےسامنےدرخواست عمران خان نےاپنے دستخط سے دائر نہیں کی جس پر عدالت نے کہا کہ تو پھر آپ یہ درخواست واپس کیسے لے سکتے ہیں۔ کیوں نہ عدالت توہین عدالت کےشوکاز نوٹس جاری کرے۔ آپ کو چاہئیے تھا کہ آپ عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتے۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ہم غیرمشروط معافی مانگنے کےلیے تیار ہیں۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ عدالت آپ کو توہین عدالت کےشوکاز نوٹس جاری کردیتی ہے۔ آپ تسلی سے بیٹھ کر جواب تیار کریں۔ حفاظتی ضمانت میں گھنٹے گھنٹے کی سماعت نہیں ہوتی۔
وکیل عمران خان نے جواب دیا کہ عمران خان کے ان کی درخواستوں پردستخط نہیں ہیں۔ یہ تاثرنہ دیاجائے کہ وہ عدالت آنا نہیں چاہتے۔
عدالت نے کہا کہ عمران خان کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس دے دیتے ہیں۔ تین ہفتوں کی تاریخ مقررکردیتے ہیں وہ تین ہفتوں میں ٹھیک ہوکرعدالت آجائیں۔ یہ عدالت کی عزت کا معاملہ ہے۔ عدالت کو پتہ ہے کہ عدالت کی عزت کیسے کرانی ہے۔ عدالت توہین عدالت کا نوٹس جاری نہیں کرتی صرف سادہ نوٹس دیتے ہیں۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے عمران خان کو شام پانچ بجے تک پیش ہونے کا آخری موقع دےدیا جس پروکیل عمران خان نے کہا کہ آئی جی سے ہم کہہ لیتے ہیں کہ مال روڈ خالی کرایا جائے۔ عمران خان کو پیش ہونے کےلئے پانچ بجے تک کا وقت دے دیاجائے۔
عمران خان کی جانب سے ان کے وکلا خواجہ طارق رحیم اوراظہر صدیق ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
عمران خان نے بنکنگ کیس میں حفاظتی ضمانت کے لئے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیاتھا۔ بنکنگ مقدمے میں عمران خان کواسلام آباد ہائی کورٹ سے ریلیف مل چکا ہے۔
عمران خان کےوکلا نے ریلیف کی بنا پرلاہور ہائی کورٹ سے درخواست واپس لینے کی استدعا کی تھی۔