میں پاکستان کی سماجی ترقی کے بارے میں پر امید نہیں ہوں: ڈاکٹر محمد نظام الدین

میں پاکستان کی سماجی ترقی کے بارے میں پر امید نہیں ہوں: ڈاکٹر محمد نظام الدین
پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین کے خاندان نے 1947 میں تقسیم ہند کے بعد حیدر آباد دکن سے کراچی ہجرت اختیار کی تھی۔ ڈاکٹع محمد نظام الدین نے 1968 میں یونیورسٹی آف شکاگو (امریکہ) سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور وطن واپس آ کر لاہور میں حکومت پنجاب کے ریسرچ سینٹر میں بطور ڈائریکٹر 6 برس تک خدمات سرانجام دیں۔ انہیں پی ایچ ڈی کیلئے فورڈ فاؤنڈیشن کی فیلو شپ ملی۔ اس کے بعد انہوں نے اقوام متحدہ کے مشیر کے طور پر 24 سال خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے 2002 میں کولمبیا یونیورسٹی میں سوشل سائنسز کے شعبے میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے بعد انہیں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے پنجاب یونیورسٹی میں خدمات انجام دینے کیلئے منتخب کیا جہاں انہوں نے سوسیالوجی کے مختلف پی ایچ ڈی کے پروگراموں کو چلایا۔ سال 2006 میں انہیں گجرات یونیورسٹی کا وائس چانسلر منتخب کیا گیا۔ وہ پاکستان کے مایہ ناز ماہر سماجیات ہیں۔

زمان خان: لوگ پاکستان کو چھوڑ کر باہر جا رہے ہیں اور آپ واپس چلے آئے آپ نے یہ فیصلہ کیوں لیا؟

ڈاکٹر نظام الدین: میں ہمیشہ سے واپس آ کر پاکستان میں کام کرنا چاہتا تھا کیونکہ میں پاکستان میں خود کو زیادہ آرام دہ محسوس کرتا ہوں۔ پاکستان میں اپنے آپ کو زیادہ کارآمد بھی سمجھتا ہوں۔ میں یہاں اور زیادہ تعمیری کام کر سکتا ہوں۔ میں گرمیوں میں امریکہ جا کر درس دیتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ یہاں چیلنجز زیادہ ہیں اور کام کرنے کی طمانیت بھی اسی حساب سے زیادہ ہے۔ وہاں امریکہ میں، میں تیس نوجوانوں پر مشتمل ایک کلاس کو پڑھا سکتا ہوں، وہ کلاسز لیں گے اور کورس کر کے چلے جائیں گے۔ یہاں پاکستان میں، میں نوجوان پاکستانیوں سے اصل مسائل اور چیلنجز پر بات چیت کر کے فرق ڈال سکتا ہوں۔ اس لئے مجھے پاکستان میں رہ کر خوشی ہوتی ہے۔



زمان خان: کیا آپ نے یہ فیصلہ نائن الیون کے بعد لیا تھا؟

ڈاکٹر نظام الدین: نائن الیون کے سانحے کے وقت میں نیو یارک میں رہا لیکن اس کا میرے واپسی کے فیصلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نیو یارک میں ابھی بھی میرا ذاتی گھر موجود ہے لیکن میں نے واپس یہاں آنے اور کام کرنے کا فیصلہ کیا۔

زمان خان: پاکستان کو آج کل کس قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے؟

ڈاکٹر نظام الدین: ہمیں بطور قوم اپنی تعریف دریافت کرنے کے چیلنجز درپیش ہیں۔ گذشتہ ساٹھ سالوں سے مختلف قسم کے لوگ مختلف منظرنامے اور تشریحات تحریر کرتے رہے ہیں۔ ہم کسی بھی ایک متفقہ بات پر متحد نہیں ہو سکے کیونکہ مختلف لوگ ایک ہی قسم کے اصولوں کو مختلف انداز سے پیش کر رہے ہیں۔ ہم نے 1973 کے آئین پر غیر مشروط اتفاق کیا تھا۔ لیکن ہر کوئی اس کو مختلف انداز سے پیش کرتا ہے۔ شدت پسند قوتیں مرکزی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہیں جو کہ انتہائی بدنصیبی کی بات ہے۔ تاریخی حوالوں سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کہیں بھی اور کسی بھی قوم کیلئے شدت پسندی مثبت علامت نہیں ہوتی۔ یہ ہمیشہ منفی قوتوں کو ہمراہ لاتی ہے۔ یہ مختصر وقت کیلئے رہتی ہے یا طویل المدت اس کا دارومدار دیگر عناصر پر ہوتا ہے۔ لیکن شدت پسندی بنیادی طور پر آپ کو فطری راستے سے بھٹکانے کا باعث بنتی ہے۔ یہاں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ آج ہم شدت پسندی صرف مذہب کے حوالے سے ہی نہیں دیکھ رہے بلکہ نسلی اور لسانی بنیادوں میں بھی یہ شامل ہو چکی ہے۔ یہ آپ کو تحفظ، خوشحالی اور ہم آہنگی نہیں عطا کرتی اس لئے قوم منقسم ہے۔ ہماری نوجوان نسل، ہمارے لوگ منقسم ہیں۔ وہ سہمے ہوئے ہیں، وہ جو بولنا چاہتے ہیں بول نہیں سکتے۔ یہاں تک کہ جو وہ محسوس کرتے ہیں وہ بھی نہیں بول پاتے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ان کے الفاظ کا غلط مفہوم نہ لے لیا جائے۔ اور جس کے نتیجے میں وہ سزائیں بھگت سکتے ہیں۔ یہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہے کیونکہ یہاں انصاف کا نظام ہی موجود نہیں ہے، اس لئے لوگ سہمے ہوئے ہہں۔ بطور پروفیسر میں انہیں وہ کچھ نہیں سکھا سکتا جو مجھے سکھانا چاہیے۔ بصورت دیگر مجھے فوری طور پر تنقید، ہراسانی کا سامنا کرنا پڑے گا اور مارا بھی جا سکتا ہوں۔ یہاں تک کہ پروفیسرز بھی اس معاملے میں بیحد محتاط ہیں۔



زمان خان: آپ مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے اس کا علاج کیسے کیا جائے اور اس ضمن میں پہلا قدم کیا ہو؟
پروفیسر نظام الدین:
میں اپنی بات پر پھر زور دیتا ہوں کہ مجھے مثبت آثار نہیں دکھائی دے رہے۔ مجھے معاشی ترقی کی علامات دکھائی دیتی ہیں لیکن قومی ہم آہنگی اور اتفاق کے بغیر یہ ترقی زیادہ عرصہ تک نہیں ٹک سکے گی۔ آپ کو قانون کی حکمرانی، مکمل انصاف اور تحفظ کا احساس پیدا کرنا ہو گا۔ لوگ جامعات میں بھی خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے۔ ہم اپنے نظریات کھل کر بیان نہیں کر سکتے۔ یہاں ہمیشہ میڈیا کی آزادی کی بات کی جاتی ہے لیکن جو لوگ میڈیا پر بولتے ہیں انہیں تاک کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ کوئی دبئی کا چینل اپنا پروگرام پیش کر سکتا ہے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کے یہاں ایک ایسا نظام موجود ہے جس کے ہوتے ہوئے آپ کو کوئی بھی شخص میڈیا پر بولنے یا اخبارات میں مضمون لکھنے پر چھو بھی نہیں سکتا۔

زمان خان: آپ انصاف کے نظام کی تشریح کس طرح کرتے ہیں؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟

ڈاکٹر نظام الدین: اس کیلئے آپ کو مخصوص فیصلے لینا ہوں گے۔ بیحد سخت پالیسی پر مبنی فیصلے جو اتفاق رائے سے ہوں اور ترجیحات پر مبنی ہوں۔ ہماری آج کی ترجیح یہ ہے کہ ہم اس بات کا کھوج لگائیں کہ شدت پسندی اس قدر تیزی سے کیوں پھیل رہی ہے۔ آپ دو گروہوں کو کیسے اس بات کی اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو ماریں اور اس عمل کے دوران وہ ساری آبادی کا تحفظ ختم کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ بچیوں کے سکول اور اساتذہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ قانون کی کوئی عملداری دکھائی نہیں دیتی۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایک ریاست کیونکر یہ سب برداشت کر سکتی ہے ۔ ریاست کس بات کی بنا پر اسے برداشت کر رہی ہے مجھے معلوم نہیں ہے۔ لیکن یہ ہرگز بھی قابل قبول نہیں ہے۔

زمان خان: آپ نے ترقی پسند قوتوں کی بات کی۔ وہ منتشر ہیں۔ انہیں کون یکجا کرے گا؟ کیا ان کے اپنے درمیان ہم آہنگی پیدا کروائی جا سکتی ہے؟ 

ڈاکٹرنظام الدین: یہ ایک المیہ ہے۔ کسی نہ کسی کو آگے بڑھ کر اس خلیج کو پر کرنا ہو گا۔ دیکھیے کلکتہ میں کیا ہوا ہے۔ وہ جماعت ابھی بھی مضبوط ہے، نظریاتی ہے۔ وہ ابھی بھی پورے شہر کو محض ہڑتال کی ایک پکار پر جام کر سکتے ہیں کیونکہ وہ منظم ہیں۔ وہ اس پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے نظریات کے ساتھ مخلص ہیں۔



زمان خان: آپ نے بھارت کی مثال دی، پاکستان میں پہلے دن سے دائیں بازو کی مخالف اشرافیہ کا تسلط ہے۔ دائیں بازو کو پھلنے پھولنے کا موقع ہی نہیں ملا؟

ڈاکٹر نظام الدین: میں اشرافیہ نہیں کہوں گا، بلکہ انہیں حکمران طبقہ کہوں گا۔ میرا مطلب ہے وڈیرے اور زمیندار اور چند جماعتیں۔ ابتدا ہی سے اس ضمن میں کنفیوژن تھی۔ انہوں نے گیارہ سال ضائع کیے اور ایک آئین تک نہ بنا پائے۔ وہ محض بحث کرتے چلے گئے۔ میرا مطلب ہے انہیں دستیاب شدہ وسائل سے ہی کچھ ابتدا کر لینی چاہیے تھی۔ انہوں نے آئین سازی کرنے کے بجائے اس پر مباحثہ جاری رکھا اور پھر نئے عناصر اور نئی جماعتیں منظر عام پر آ گئیں۔ یہ بہت بدقسمتی ہے۔ ایک طریقے سے آپ بھٹو کو داد دے سکتے ہیں کہ کم سے کم اس نے ایک آئین تشکیل دیا اور اس پرتمام فریقین کے دستخط ثبت کروائے۔ انہوں نے اس آئین کا احترام بھی نہیں کیا۔

زمان خان: بلوچستان سے اکثریتی ممبران اسمبلی نے 1973 کے آئین پر دستخط نہیں کیے تھے۔

ڈاکٹر نظام الدین: لیکن اکثریت نے اسے تسلیم کیا تھا۔



زمان خان: لیکن بھٹو نے خود اپنے بنائے ہوئے آئین پر عمل نہیں کیا؟

ڈاکٹر نظام الدین: جی ہاں اور میرا خیال ہے کہ یہیں سے بدقسمت تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔ دستور سازی کے بعد تمام طریقے جمہوری ہونے چاہیے تھے۔ یہاں بھٹو غلط تھا۔ اس نے سوچا کہ اس کے پاس اکثریت ہے اور وہ آئین میں تبدیلی لا سکتا ہے۔

زمان خان: ایک ماہر سماجیات ہونے کے ناطے آپ پاکستانی سماج کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ کیا آپ کو کوئی امید ہے کہ ایک دن یہ صحیح معنوں میں ایک قوم میں تبدیل ہو جائے؟

ڈاکٹر نظام الدین: قومیں بچ جایا کرتی ہیں لیکن مجھے علم نہیں کہ پاکستان کس صورت اور کس قسم کی صورتحال میں باقی رہے گا۔ لوگ باقی رہیں گے۔ یہ سینکڑوں سالوں سے بقا کی جنگ لڑتے آ رہے ہیں۔ لیکن میں ایک مضبوط پاکستانی قوم بننے کے آثار نہیں دیکھ رہا ہوں۔ مجھے کوئی اشارے نظر نہیں آ رہے۔ مجھے ایک قوم جو ایک ملک کی خاطر کسی متحد مقصد یا نظریے پر کھڑی ہو اس کی بنیادیں دکھائی نہیں دے رہیں۔ ہمارے یہاں سب کچھ بدلتا رہتا ہے۔ کم سے کم ہماری قومی سوچ تو ایک ہونی چاہیے۔ لیکن یہ بھی صرف طاقتوروں کے پاس ہے۔ صدر مشرف کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک قوم ہے جس کی سوچ ایک ہے۔ مجھے یہ بات پاکستان کے اخبارات، میڈیا، دانشوروں اور مذہبی رہنماؤں سے سننے کو نہیں ملی۔ مجھے ایسا نہیں لگتا۔ کوئی بھی شخص ایک قومی سوچ کے ساتھ آگے نہیں آ رہا ہے۔ اس لئے میں اس ضمن میں کچھ خاص پر امید نہیں ہوں۔