سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں جلیلہ حیدر نے دعویٰ کیا تھا کہ انھیں لاہور ایئرپورٹ پر حکام نے اس وقت روکا جب وہ برطانیہ جانے کے لیے وہاں پہنچیں۔ جلیلہ کے مطابق حکام کی جانب سے انہیں بتایا گیا کہ ریاست مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ہے۔
خبر سوشل میڈیا پر پھیلنے کے بعد بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کئی کارکن جلیلہ کی حمایت کرنے لاہور ایئر پورٹ پہنچ گئے۔ کارکن اور استاد عمار علی جان نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں جلیلہ کی رہائی کی خبر دی۔
With our champion, @Advjalila. She has been released. Thank you everyone for your solidarity. #IStandWithJalila pic.twitter.com/jbm442BEeM
— Ammar Ali Jan (@ammaralijan) January 20, 2020
جلیلہ حیدر کی بہن عالیہ حیدر نے ایئر پورٹ پر برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے جلیلہ کے زیر حراست ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ جلیلہ حیدر کو برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کرنا تھی اور وہ اپنی بہن کو ایئرپورٹ چھوڑنے آئی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ جب میں نے ایئرپورٹ پر موجود افسران سے دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ آپ کی بہن خفیہ ادارے کی مطلوبہ افراد کی فہرست میں ہیں۔
عالیہ کے مطابق انھیں بتایا گیا کہ نو بجے ایک افسر آئیں گے جو انھیں اس حوالے سے مزید معلومات دے سکیں گے۔
جلیلہ حیدر کو تحویل میں لینے سے متعلق ایف آئی اے نے تاحال کوئی مؤقف پیش نہیں کیا۔ تاہم، ایف آئی اے نے جلیلہ حیدر کو رہا کر دیا ہے۔
جلیلہ حیدر کون ہیں؟
جلیلہ حیدر سنہ 2019 میں بی بی سی کی متاثرکُن اور بااثر 100 خواتین کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔ جلیلہ حیدر نے سنہ 2018 میں کوئٹہ میں جاری ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف بھوک ہڑتال میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہڑتال اس وقت ختم کی جب آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے ان سے ایک ملاقات کے دوران ہزارہ برادری کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے احتجاج میں بھی پیش پیش رہی ہیں۔