خدائی خدمتگارو پر جو گزری، خدا دشمنوں کو بھی ایسے مظالم سے بچائے

خدائی خدمتگارو پر جو گزری، خدا دشمنوں کو بھی ایسے مظالم سے بچائے
ایک صدی پر محیط سفر گزارنے کے بعد بھی خدائی خدمتگار تحریک تقسیم سے پہلے جس انداز اور جس مقام پر ظالم کے خلاف اور محکوم اقوام کے ساتھ کھڑی تھی وہی شجر آج بھی اسی توانائی اور جذبے کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کی شکل میں اب بھی ہر اول دستے کی شکل میں موجود ہے۔

چونکہ عدم تشدد کے عظیم پیامر خان عبدالغفار خان المعروف باچاخان نے اس تحریک کی بنیاد ڈالی تھی  مگر اس کی آبیاری اس کے نابغہ روزگار اور اصول پسند ولی خان نے شاندار ترین انداز میں کی۔ اس وقت پاکستان میں عوامی نیشنل پارٹٰی (اے این پی ) ملک کی سب سے پرانی سیاسی اور جمہوری جماعت ہے۔ ریڈ شرٹس یا خدائی خدمتگار کے بانی باچاخان نے بعد میں مسلم لیگ کی بجائے کانگریس کے ساتھ اس لئے اتحاد کیا تھا کیونکہ دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی ہم آہنگی تھی اگرچہ خدائی خدمتگار تحریک ہندوستان کے آخری مغربی شہر سے شروع ہوا تھا مسلم لیگ چونکہ بظاہر مسلمانوں کی جماعت تھی مگر مسئلہ یہی تھا کہ ان کا ایجنڈا بالکل ہی مختلف تھا اور جس میں اس وقت کے ایلیٹ کلاس کے لوگ شامل تھے اور سیاسی سوچ رکھنے والے لوگ اس جماعت کو پرو کوئین جماعت بھی تصور کرتے تھے۔

جس کو باچا خان کے صاحبزادے خان عبدالولی خان نے اپنی شاہکار تحقیقی کتاب / "رشتیا رشتیا دی (پشتو) حقائق حقائق ہیں (اردو) اور فیکٹس آر فیکٹس (انگریزی) زبانوں میں سامنے لائے ہیں اگرچہ ریاست پاکستان نے اس کتاب پر پابندی لگانے کی کوشش بھی کی تھی مگر نہ تو اس کتاب کا کوئی توڑ ابھی تک سامنے لے آیا ہے اور نہ مستقبل میں آئے گا کیوںکہ ولی خان نے وائسرائے اور سیکرٹری فار انڈیا کے مابین خطوط کو برٹش لائبریری میں اکٹھا کرکے اور اس کو کتابی شکل دی ہے۔ 

https://youtu.be/mStzdqhRLPc

ان پاکستانی اور ہندوستانی پڑھنے والے کے لئے غرض ہے کہ باچا خان نے عدم تشدد کا فلسفہ ایک ایسے ریجن میں لاگو کیا تھا جہاں کے لوگوں کے متعلق یہی بات مشہور کی گئی ہے کہ پشتون بڑے جنگجوؤ ہیں بالکل درست کیونکہ سامراج برطانیہ نے بھی اپنا ٹو/ تھرڈ فورسز اور بجٹ کو اسی علاقے کے لئے مختص کیا تھا لیکن اس کی ایک وجہ سوشلسٹ روس کا راستہ روکنا تھا چونکہ افغانستان کا سرحد روس کے ساتھ لگتا ہے اس لئے نارتھ ویسٹ فرنٹئر موجودہ خیببر پختونخوا تک انگریز نے ریل کی پٹڑی بھی ملٹری مقاصد کے لئے بچھائی تھی۔

تاریخی حقائق اگرچہ اس سے بہت مختلف ہیں کیونکہ موجودہ پاکستانی نارتھ ویسٹ علاقے تو مذہبی اور عصری علوم، آرٹ ، موسیقی کا گڑھ رہا ہے تو باچاخان نے اصل میں وہی مثبت خوبیوں کا مالک پشتون کے چہرے کو دنیا کے سامنے لے آئے۔ اس میں بھی کوئی دوسری آراء نہیں ہے کہ گاندھی جی کے مقابلہ میں عدم تشدد کو پشتون علاقوں میں عملا نافذ کرنا نہایت دشوار اس لئے تھا کیونکہ اس خطے کےرہنے والے پشتون کو باہر کی قوتوں نے کبھی بھی چین سے سونے نہ دیا اور ایک نہ ختم ہونے والی جنگوں کی وجہ سے نسلیں جنگوں میں پلی بڑھی عدم تشدد کے فلسفہ کو اس کے اصل روح میں اپنے آپ پر نافذ کرنے  کے لئے بھی بہادری چاہئے۔

لیکن ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہو چکی ہے کہ باچاخان فرنٹئیر گاندھی بالکل بھی نہیں تھے کیوںکہ باچاخان نے تو تعلیم کے لئے 1910 میں سکول بنانے سے شروع کئے جس کو انگریزوں نے کبھی داد نہیں دی کیوںکہ باچاخان سکولز میں دھرتی کا درد رکھنے والے دانشور سامنے آ رہے تھے بعد میں انہوں انجمن اصلاح الافاغنہ جس کا مقصد آپس کے برے رسم و رواج اور لڑائیوں کا خاتمہ تھا اور اس کے بعد خدائی خدمتگار تحریک کی بنیاد ڈال کر پوری پشتون قوم کو انگریز سامراج کے خلاف عدم تشدد فلسفہ کو مشغل بنا کر ایک سیاسی پلیٹ فارم مہیا کیا چونکہ سیاسی شعور کی شدید کمی تھی اور سیاست کرنے کےلئے مکالمہ بہت ضروری ہوتا ہے اور مکالمہ کے لئے علم۔

ایک تعلیمی تحریک کو سماجی اور بعد میں سیاسی بناکر لوگوں کو آزاد وطن اور اپنے وسائل کو اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے نعرے پر پشتونوں کو باچاخان نے جمع کیا۔ گاندھی جی اور کانگریس کے اکابرین نے دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ کا جب ساتھ دیا تو عظیم باچاخان نے اسی وقت مجلس عاملہ سے استعفیٰ دے کر گاندھی جی کو کہا کہ آپ کا عدم تشدد کا فلسفہ ہندوستان کی آزادی تک مگر میں مرتے دم تک اس کو چھوڑ نہیں سکتا تو اس بات کو بنیاد بنا کر باچا خان فرنٹئیر گاندھی نہیں تھے اور نہ گاندھی جی انڈین باچاخان تھے۔ دونوں رہنماؤں کے مقاصد ایک جیسے تھے جس کی وجہ سے کانگرس اور خدائی خدمتگار تحریک ایک پوائنٹ پر اکٹھے ہو گئے تھے۔ "آپ نے ہمیں بھڑیوں کے حوالے کیا" باچاخان نے تقسیم سے پہلے آخری ملاقات میں گاندھی جی، نہرو اور سردار پٹیل کو بولا تھا اگرچہ اس میٹنگ میں مولانا ابوالکلام آزاد بھی رنجیدہ بیٹھے ہوئے تھے، بدقسمتی سے بعد میں یہ دعویٰ حالات اور واقعات نے درست ثابت کردیا۔

تقسیم سے پہلے ماؤنٹ بیٹن نے باچا خان کے ریفرنڈم میں تیسرا مطالبہ  علیحدہ "پختونستان" بھی شامل نہیں کیا اور نہ کانگرس کی قیادت نے اس بات پر باچا خان کا ساتھ دیا تھا، تاریخی طور پر کانگرس نے باچا خان کے ساتھ وفا اور وعدہ نہیں نبھایا تھا۔ ہندوستان تقسیم کے نتیجے میں ہندوستان اور پاکستان بنتے ہی 33 سال سے زیادہ جیل میں گزارنے والے باچاخان کو تقریبا 14 سال انگریزوں نے قیدی رکھا مگر باقی کے عرصہ میں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں نے باچاخان اور ان کے دوستوں پر غداری کے فتوے لگائے اور عمر کی آخری حصے تک پاکستانی طاقتور اداروں نے ان کو یا توقید یا گھر میں نظربند رکھا۔

ہری پور جیل میں تو باچاخان باقاعدگی سے کھیتی باڑی کرتے تھے۔ مظالم کی ایسی داستان ہے جب ہم ہندوستانی، انگریز سامراج کے شکنجے میں تھے تو یہی خدائی خدمتگار تھے جن پر انگریز گولیاں برساتے تھے اور بعد میں جب پاکستان بنا اور باچاخان نے پہلی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ہم متحدہ ہندوستانی کے زبردست حامی تھے مگر اب ہم اس دیس کے باشندے ہیں اور ہم یہاں کے قانون ماننے رہیں گے۔ 

مگر پہلی آزادی منانے سے دو دن پہلے 1948 میں چارسدہ جو باچاخان کا آبائی شہر ہے کے بابڑہ گاؤں میں پرامن اور نہتے خدائی خدمتگاروں پر اپنے ہی ملک کی فورسز نے گولیاں برسا کر تقریبا 600 افراد کو بھون ڈالا۔ جس کی خبر نہ تو اس وقت کی عدالت، نہ میڈیا اور نہ نہرو اور پٹیل کو ہوئی بعد میں خدائی خدمتگار تحریک کے ہیڈکوارٹر کو جب بموں سے اڑا دیا پھر بھی کسی کانگرس اور نہ مقامی ذرائع ابلاغ کو خبر ہوئی۔

خدائی خدمتگارو پر جو گزری ہے خدا دشمنوں کو بھی ایسے مظالم سے بچائے۔ بابڑہ واقعہ کے بعد چھ سال کے لئے باچاخان اور دوسری قیادت جیل میں تھیں مگر جب رہائی ملی تو خدائی خدمتگار شدید پریشان اور مایوس تھے اور توقع کر رہے تھے کہ باچاخان اب عدم تشدد کا فلسفہ دفن کر دے گا مگر انھوں نے کہا جو لوگ میرے ساتھ ہیں ان کو نان وائلنس کے ساتھ جانا پڑے گا اور دنگا فساد کرنے والے ہمارے دوست نہیں ہوں گے۔

اس کے بعد بھی ایک طویل نہ ختم ہونے والا آئینی اور غیر آئینی دور آتا ہے ملٹری جرنیلوں کے سامنے دیوار کی طرح باچاخان اور بعد میں ان کے تاریخ ساز ولی خان نہ بکے اور جھکے۔ انھوں نے آئین شکن کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں بے پروا کھڑے رہے۔ پاکستان میں ایک ایسا دور بھی آتا ہے جب سیاسی سوچ اینٹی اور پرو مارشل لاء کی ہوتی ہے۔ ولی باغ ہی وہ جگہ ہے جس کو بے نظیر بھٹو نے بھی عظیم سیاسی یونیورسٹی کہا ہے اور وہ اکثر ولی خان سے ملنے آتی بھی تھیں اگر تمام پاکستانی جماعتیں ملٹری آمرکی ساتھی بھی بنیں تو کسی کے لئے کوئی حیرانگی کی بات نہیں ہو گی، اگر باچاخان، ولی خان کی سوچ رکھنے والی عوامی نیشنل پارٹی ذرا سی بھی ہلتی ہے تو ملک بھر میں طوفان سا مچ جاتا ہے اورپارٹی ورکرز کی طرف سے شدید ترین اعتراضات بھی آتے ہیں۔ ولی باغ نے کبھی بھی باچا خان ، نیشنل پارٹٰی اورپاکستانی آئینی اصولوں سے روگردانی نہیں کی اور آج بھی باچا خان کی پیروی کرنے والے اسی اصولی مقام پر کھڑے ہیں۔

 

مصنف پشاور سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان سے رابطہ ٹوئٹر پر @theraufkhan کیا جا سکتا ہے۔