ملک بھر میں عام انتخابات کا 8 فروری کو انعقاد کیا جارہا ہے تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان ( ای سی پی) کو تاحال انتخابات کو محفوظ بنانے کے لیے سیکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق اس نے پولنگ کے دن چاروں صوبوں اور اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) میں نصف ملین سے زیادہ سیکیورٹی اہلکار، یا 5 لاکھ 35 ہزار 402 یونٹس کو تعینات کرنے کی ضرورت کی نشاندہی کی ہے۔
تاہم، صوبوں اور اسلام آباد کے پاس صرف 3 لاکھ 67 ہزار 669 پولیس اہلکار اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکار پولنگ کے دن تعیناتی کے لیے دستیاب ہیں۔اس کے باوجود بھی 1 لاکھ 67 ہزار 733 سیکیورٹی اہلکاروں کی کمی رہ جاتی ہے۔
ضروریات اور دستیاب یونٹس کی کمی سے پتہ چلتا ہے کہ پنجاب کو 2 لاکھ 21 ہزار 33 اہلکاروں کی ضرورت ہے لیکن صرف 1 لاکھ 30 ہزار اہلکار دستیاب ہیں۔
اسی طرح سندھ کو 1 لاکھ 15 ہزار 500 اہلکاروں کی ضرورت ہے لیکن 8 فروری کو تعیناتی کے لیے صرف 1 لاکھ 5 ہزار اہلکار دستیاب ہیں۔
خیبرپختونخوا میں 1 لاکھ 15 ہزار 430 اہلکاروں کی ضرورت کے مقابلے میں صرف 89 ہزار 959 اہلکار دستیاب ہیں جبکہ بلوچستان میں 73 ہزار 439 اہلکاروں کی ضرورت کے مقابلے میں 38 ہزار 210 اہلکار دستیاب ہیں۔
وفاقی دارالحکومت میں 10 ہزار اہلکاروں کی ضرورت ہے لیکن صرف 4 ہزار 500 اہلکار دستیاب ہیں۔
ای سی پی نے کہا کہ حکومت کو آزاد جموں و کشمیر یا گلگت بلتستان کی حکومتوں کو خط لکھنا ہو گا تاکہ اس خلا کو پر کرنے کے لیے انتخابات کے دوران دیگر علاقوں میں اہلکاروں کی تعیناتی کی درخواست کی جائے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے عام انتخابات میں سیکیورٹی اہلکاروں کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کر دیا۔
سیکیورٹی اہلکار تمام پولنگ سٹیشنز میں ڈیوٹی پر موجود ہوں گے اور پرامن ماحول کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ بیلٹ پیپرز کی باحفاظت نقل وحرکت کے ذمے دار ہوں گے۔
انتخابی ضابطہ اخلاق کے مطابق کسی ووٹر کے پولنگ سٹیشن میں داخلے کے حق کو سلب نہیں کیا جا سکتا اور سیکیورٹی اہلکار کسی ووٹر سے اس کی شناخت کا ثبوت نہیں مانگے گا۔
انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی اہلکار کسی جماعت یا امیدوار کے حق یا مخالفت میں کام نہیں کرے گا اور انتخابی عمل کے دوران وہ غیر جانبدار رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابی مواد کی ترسیل، پولنگ، گنتی اور نتائج مرتب ہونے تک سیکیورٹی اہلکار تعینات رہیں گے جبکہ ریٹرنگ افسران کے دفاتر سے پولنگ سٹیشنز تک بیلٹ پیپرز کی ترسیل پر بھی سیکیورٹی اہلکار تعینات ہوں گے۔
اس کے علاوہ بیلٹ پیپرز کی آراوز تک ترسیل پر بھی سیکیورٹی اہلکار تعینات ہوں گے اور بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے دوران پرنٹنگ کارپوریشنز پر سیکیورٹی اہلکار تعینات ہوں گے۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ سیکیورٹی اہلکار کسی صورت پولنگ عملے کے فرائض انجام نہیں دے سکتا اور نہ ہی انتخابی مواد کو اپنی تحویل میں نہیں لے سکتا۔
ضابطہ اخلاق کے تحت پریزائڈنگ افسر کی ہدایت کے بغیر اہلکار کسی شخص کو پولنگ سٹیشن سے گرفتار نہیں کرسکتا اور کسی بھی واقعے پر پریزائڈنگ افسر کی ہدایت کے بغیر کارروائی نہیں کر سکتا۔
اس کے علاوہ سیکیورٹی اہلکار کسی امیدوار، پولنگ ایجنٹ، مبصر یا میڈیا سے بحث نہیں کرے گا اور انتخابی عمل کے دوران مکمل طور پر غیرجانبدار رہے گا۔
پاک فوج اور سول آرمڈ فورسز کے لیے الگ ضابطہ اخلاق جاری کیا جائے گا۔
گزشتہ روز پنجاب پولیس نے 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کی سیکیورٹی کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے ایک ارب 19 کروڑ مانگ لیے۔
پنجاب پولیس نےجلسوں، جلوسوں کی مانیٹرنگ اور الیکشن کے لیے لاہور میں کنٹرول روم تیارکرلیا جب کہ پولنگ سٹیشن کا ازسر نو سروے کرکے پولنگ سٹیشنز کی سکیم بھی الیکشن کمیشن کو بھجوا دی۔
پولیس حکام کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مطلوبہ فنڈ سے الیکشن کی ڈیوٹی پر تعینات نفری کےکھانے پینے، پیٹرول اور سیکیورٹی اشیا کی خریداری کی جائےگی۔ فنڈز میں 53 کروڑ پیٹرول جب کہ 66 کروڑ روپے کھانے پینے اور سیکیورٹی آلات کے لیے طلب کیے ہیں۔
پولیس حکام نے بتایا کہ کنٹرول روم اے آئی جی آپریشنز کی سربراہی میں کام کرے گا۔ اس میں 15 ڈیٹا انٹری آپریٹرز اضافی تعینات کردیے گئے، کنٹرول روم سے جلسوں، جلوسوں کے دوران تمام خلاف ورزیوں کے حوالے رپورٹس لیں گے۔
پنجاب پولیس نے کہا کہ تمام اضلاع میں کنٹرول روم میں بروقت رپورٹس کےلیے افسران کو فوکل پرسنزمقرر کیا گیا ہے۔ الیکشن ڈے پر ڈیوٹی کے لیے ایک لاکھ 30 ہزار جوان ڈیوٹی سرانجام دیں گے۔