بلوچستان کا علاقہ موہ لا چٹک، جو اپنے دامن میں صدیوں کو سمیٹے ہوئے ہے

بلوچستان کا علاقہ موہ لا چٹک، جو اپنے دامن میں صدیوں کو سمیٹے ہوئے ہے
بلوچستان جہاں قدرت کے حسین نظارے دیکھنے والوں کو حیران کردیتے ہیں، وہیں یہ صدیوں پرانی تہذیب کا امین بھی ہے۔ خاص کر دریائے موہ لا کے کنارے آباد مختلف قومیتوں سے متعلق تہذیب کے بہت سے آثار دریافت ہوئے ہیں۔ تاریخ پرمضبوط گرفت رکھنے والے ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان خضدار سلطان احمد شاہوانی کے مطابق دریائے موہ لا کے کناروں سے کم سے کم بھی 1013 عیسوی کی تہذیب کے آثار دریافت ہوئے ہیں۔



سلطان احمد شاہوانی کے مطابق اس علاقے میں ایسی قدیم قبریں بھی دریافت ہوئی ہیں جن میں مرنے والے مرد کیساتھ اس کی تلوار اور دیگر ہتھیار دفنائے جاتے تھے۔ جبکہ خواتین کے ساتھ ان کے زیورات بھی دفنائے جاتے تھے۔ اس علاقے سے قدیم زبان میں تحریر کتبے بھی دریافت ہوئے ہیں۔



اس علاقے سے ملنے والے ظروف کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ قوم کتنی شاندار تہذیب کی حامل رہی ہوگی۔ مختلف اقسام کے ظروف پر مچھلی کی اشکال قابل دید ہیں۔ سلطان احمد شاہوانی کے مطابق اس علاقے میں گولڈن ماسیر مچھلی کثیر تعداد میں پائی جاتی تھی۔



یہاں سے ملنے والے برتنوں سے ان کے قدیم ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سلطان احمد شاہوانی کے مطابق اس علاقے سے ملنے والے برتنوں پر کوئی رنگ موجود نہیں ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت برتنوں پر رنگ کرنے کی روایت نہیں رہی ہوگی جبکہ برتنوں کی بناوٹ بھی مختلف نوعیت کی ہے۔



اس علاقےسے کچھ مورتیاں بھی ملی ہیں جبکہ مختلف جانوروں کی مورتیاں بھی ملنے والےآثار قدیمہ میں شامل ہیں۔ اس سے ان کے مذہب کا اندازہ ہوتا ہے۔



سلطان احمد شاہوانی کے مطابق دریائے موہ لا کے کنارے آباد قدیم تہذیب کے کافی نوادرات مقامی افراد نے نکال کر فروخت کر دیے ہیں۔ تاہم اب بھی قدیم ترین تہذیبوں کے نوادرات کثیر تعداد میں یہاں دفن ہیں جنہیں نکالنے کے لئے حکومت کی جانب سے سنجیدگی ظاہر نہیں کی جا رہی۔ وہ بارہا حکومت کو ان آثارقدیمہ کی موجودگی کے حوالے سے خط لکھ چکے ہیں مگر اس سلسلے میں تاحال کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ انہوں نے حکومت کو پیشکش کی کہ اگر حکومت ان نوادرات کو نکال کر خضدار میں ایک میوزیم قائم کرنے کا بیڑا اٹھائے تو وہ اپنی تحویل میں موجود 200 سے زائد نوادرات بھی میوزیم کوعطیہ کر دیں گے۔

مصنفہ رپورٹنگ کے شعبے سے منسلک ہیں اور مختلف صحافتی اداروں میں خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔