دفتر خارجہ نے سائفر کو وزیراعظم اور وزیر خارجہ سے چھپائے جانے کا دعویٰ مسترد کردیا

دفتر خارجہ نے سائفر کو وزیراعظم اور وزیر خارجہ سے چھپائے جانے کا دعویٰ مسترد کردیا
دفتر خارجہ نے ایک مرتبہ پھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اس دعوے کو چیلنج کیا ہے کہ واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر کی سفارتی کیبل حکومتی عہدیداروں سے ’چھپائی گئی‘ تھی۔

کہا گیا تھا کہ مذکورہ کیبل میں امریکی عہدیدار کا سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر تبصرہ شامل تھا۔

تفصیلات کے مطابق دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے ایک بیان میں کہا کہ 'یہ دعویٰ مکمل طور پر بے بنیاد ہے کہ واشنگٹن میں سفارت خانے سے موصول ہونے والی سائفر کمیونیکیشن وزیر خارجہ یا وزیر اعظم سے پوشیدہ تھی۔'

یہ بیان عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کے ایک پریس کانفرنس میں اس الزام کو دہرانے کے بعد جاری کیا گیا کہ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کی کاپیاں فراہم نہیں کی گئیں، جسے عام طور پر ڈپلومیٹک کیبل کہا جاتا ہے۔

امریکا میں اس وقت کے پاکستانی سفیر اسد مجید کی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے عہدیدار ڈونلڈ لو سے ملاقات پر مبنی سائفر پی ٹی آئی کے اس دعوے کا مرکز ہے کہ امریکا نے پاکستان کے اندر موجود عناصر کے ساتھ مل کر عمران خان کو عہدے سے ہٹانے کی سازش کی تھی۔

شہباز گل نے کہا تھا کہ مذکورہ سائفر عمران خان اور شاہ محمود قریشی سے چھپایا گیا تھا اور اسے 'نکلوانا' پڑا تھا۔

تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ پی ٹی آئی کے خیال میں اسے کس نے چھپانے کی کوشش کی تھی۔''

ترجمان نے کہا کہ ایسا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ دفتر خارجہ پیشہ ورانہ بنیادوں پر کام کرتا ہے اور اس کے کام پر شکوک و شبہات کا اظہار کرنا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

سفارتی ذرائع کے مطابق سائفر کی تحریر کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا، سائفر کی تحریر کو ایک طریقہ کار کے تحت ڈی کوڈ کیا جاسکتا ہے اور اس کو کاپی نہیں کیا جاسکتا نہ اس کی فوٹو کاپی ممکن ہوتی ہے، مراسلے کی تقسیم صرف متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کو کی جاتی ہے اور اس میں کسی قسم کی تاخیر نہیں ہوتی، ایسا مراسلہ موصول ہو نے کے ساتھ ہی فوری طور پر متعلقہ حکام تک پہنچا دیا جاتا ہے۔

دفتر خارجہ نے 25 اپریل کو وزارت خارجہ کی پریس کانفرنس کا ٹرانسکرپٹ بھی شیئر کیا، جس کے مطابق 25 اپریل کی پریس کانفرنس میں سفیر اسد مجید پر دباؤ اور رانا ثناء اللہ کے شاہ محمود قریشی پر سائفر کو ایڈٹ کرنے کے الزام کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان نے واضح کیا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے دو اجلاسوں میں اس معاملے پر کھل کر با ت ہوئی اور دونوں اجلاسوں کے اعلامیے ایک جیسے ہیں۔

دفتر خارجہ نے کہا کہ کمیٹی نے مکمل جانچ پڑتال کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ کوئی غیر ملکی سازش نہیں تھی، پاکستانی سفیر پر کسی بھی وقت کسی قسم کا دباوٴ نہیں تھا اور کمیونیکیشن میں کسی ترمیم کا کوئی امکان نہیں، اکتیس مارچ کے این ایس سی اجلاس میں ہدایت کی گئی تھی کہ سفارتی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب طریقے سے احتجاج کیا جائے۔

سازش اور مداخلت میں فرق کے حوالے سے سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا تھا کہ ان اصلاحات کے معنی واضح کرنا ان کے بس کی بات نہیں، سائفر کو وزیر خارجہ سے چھپائے جانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا تھا کہ اس طرح کے دعوے بے بنیاد ہیں،اس طرح کی کسی چیز کو چھپانے یا روکنے کا کوئی سوال یا امکان نہیں ہے۔ یہ سائفر ایک ٹیلیگرام تھا جو دفتر خارجہ میں موصول ہوا اور اسے فوری طور پر متعلقہ حکام میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔