اعظم خان القادر، توشہ خانہ کیسز میں عمران خان کے خلاف 'وعدہ معاف گواہ' بنیں گے

اعظم خان القادر، توشہ خانہ کیسز میں عمران خان کے خلاف 'وعدہ معاف گواہ' بنیں گے
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان آئندہ دنوں میں القادر یونیورسٹی کیس اور توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے خلاف 'وعدہ معاف گواہ' بنیں گے۔ یہ انکشاف کیا ہے صحافی جاوید چوہدری نے۔

اپنے حالیہ وی-لاگ میں صحافی جاوید چوہدری نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون میں تازہ ترین ترامیم کا مقصد اعظم خان کو تحفظ فراہم کرنا ہے تاکہ وہ آسانی سے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف درج مقدمات میں 'وعدہ معاف گواہ' بن سکیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے عمران خان کو سائفر گیٹ سکینڈل میں 25 جولائی کو اس وقت طلب کیا جب اعظم خان نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے تمام تر حقائق کو چھپا کر سائفر کا جھوٹا اور بے بنیاد بیانیہ بنایا اور تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لیے سائفر کو بیرونی سازش کا رنگ دیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے صرف اپنی حکومت بچانے کے لیے سائفر ڈرامہ رچایا۔

اعظم خان نے کہا کہ عمران خان کہتے تھے کہ میں سائفر کو غلط رنگ دے کر عوام کا بیانیہ بدل دوں گا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے مجھ سے سائفر 9 مارچ کو لے لیا اور بعد میں گم کردیا اور پھر سائفر کا ڈرامہ رچایا گیا۔ سائفرکو جان بوجھ کر ملکی سلامتی اداروں اور امریکا کی ملی بھگت کا غلط رنگ دیا گیا۔

سابق پرنسپل سیکریٹری نے اپنے بیان میں کہا کہ عمران خان نے سائفر کے ڈرامے کے ذریعے عوام میں ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف نفرت کا بیج بویا اور منع کرنے کے باوجود چیئرمین پی ٹی آئی نے سیکریٹ مراسلہ ذاتی مفاد کیلئے لہرا دیا۔

یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی جب وفاقی حکومت نے خفیہ دستاویز کو پبلک کرکے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے پر پی ٹی آئی چیئرمین کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے لیے ’سائفر گیٹ‘ کیس کی سرکاری انکوائری کا اعلان کیا۔

جاوید چوہدری نے کہا کہ چونکہ اعظم خان سابق وزیر اعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری تھے اس لیے وہ اہم عہدے پر تھے اور سابق وزیر اعظم کے تمام اچھے برے کاموں کے ذمہ دار تھے۔

انہوں نے جہانگیر ترین اور فیصل واوڈا کی مثالیں دے کر کہا کہ پی ٹی آئی کے جن رہنماوَں کا اعظم سے جھگڑا ہوا انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔

صحافی نے بتایا کہ 8 مارچ کو امریکا میں اس وقت کے سفیر اسد مجید نے امریکی وزارت خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری ڈونلڈ لو سے ملاقات کی، ایک سائفر تیار کیا اور اسے پاکستان کی وزارت خارجہ کو بھجوایا۔ اس کے بعد سیکرٹری خارجہ نے اسے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان، اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کو بھیجا۔

انہوں نے کہا کہ اعظم خان نے عمران خان کو 9 مارچ کو سائفر کے بارے میں بتایا اور 28 مارچ کو ایک آڈیو لیک منظر عام پر آئی جس میں عمران خان سائفر کی بات کر رہے تھے اور اسے ایک قیمتی دستاویز قرار دے رہے تھے جس پر وہ مستقبل میں کھیلنے کے ارادے کا اظہار کر رہے تھے۔ انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے اس ٹیلی فون کمیونیکیشن کو ریکارڈ کر کے حکومت کو بھیج دیا اور بعد میں حکومت نے اسے لیک کر دیا۔