عمران خان اپریل میں آرمی چیف تبدیل، الیکشن میں دھاندلیِ، مخالفین کو نااہل کروانے والے تھے: حامد میر

عمران خان اپریل میں آرمی چیف تبدیل، الیکشن میں دھاندلیِ، مخالفین کو نااہل کروانے والے تھے: حامد میر
سابق وزیر اعظم عمران خان اپریل 2022 میں نیا آرمی چیف لا کر جلد الیکشن کروانا چاہتے تھے جن میں انہیں دو تہائی اکثریت دلوائی جاتی اور ان کے مخالفین، خصوصاً مسلم لیگ نواز کے خلاف ایک محاذ کھڑا کیا جا رہا تھا جس کے لئے آصف علی زرداری سے بھی رابطہ کیا گیا تھا مگر انہوں نے انکار کر دیا۔

یہ کہنا تھا سینیئر صحافی حامد میر کا نیوز ون چینل پر سجاد میر کے ساتھ انٹرویو میں جہاں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر یہ اپنا تبصرہ دے رہے تھے۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی یہ بتانے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ وہ عمران خان کو اپریل میں ہی کیوں نکالنا چاہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پیپلز پارٹی سے عمران خان اور مقتدر قوتوں سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد نے، ادارے کی طرف سے ہدایات کے تحت نہیں بلکہ انفرادی حیثیت میں، رابطہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ہمارے ساتھ تعاون کریں اور ہم کوئی اتحاد کی صورت نکال سکتے ہیں۔ عمران خان جو تاثر دے رہے تھے کہ آصف زرداری میری بندوق کی 'نشست' پر ہیں، بات اس کے بالکل الٹ تھی۔ وہ آصف زرداری کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے اور انہیں کہہ رہے تھے کہ آپ PTI کو سندھ میں کچھ جگہ دیں اور ہم آپ کو مرکز میں لے آئیں گے اور مل کر ہم مسلم لیگ ن کا مقابلہ کریں گے۔ مسلم لیگ ن کے بارے میں حامد میر کے مطابق آصف زرداری کو پیغام دیا گیا کہ "Let’s fix them"۔

پیپلز پارٹی سے یہ سب بات انٹیلیجنس بیورو کے ذریعے ہو رہی تھی۔ انٹیلیجنس بیورو نے عمران خان کے کہنے پر آصف زرداری کے ایک قریبی شخص کے ذریعے ان کو پیغامات پہنچائے اور پیپلز پارٹی نے اس شخص کو ایک، دو بار شٹ اپ کال دی اور بالآخر اسے پیپلز پارٹی سے فارغ کر دیا گیا حالانکہ یہ زرداری صاحب کا بہت قریبی آدمی تھا بلکہ اس کی پہچان پیپلز پارٹی ہے ہی نہیں، اس کا تعارف ہی آصف زرداری ہیں۔

زرداری صاحب نے جب مکمل طور پر انکار کر دیا تو زرداری اور بلاول صاحب سے براہِ راست رابطہ کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ بھول جائیں کہ الیکشن ہوگا، آپ نواز شریف اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر ایڈجسٹمنٹ کریں گے اور عمران خان کو نکال دیں گے، ایسا نہیں ہونا۔ "اپریل 2022 میں نئے آرمی چیف کی تقرری ہونی ہے اور اس کے بعد اسی سال اکتوبر، نومبر میں قبل از وقت انتخابات کروا دیے جائیں گے۔ اس الیکشن میں دو تہائی اکثریت ملے گی عمران خان کو۔ اور جو اسمبلی اس الیکشن کے نتیجے میں بنے گی وہ آئین میں بڑی اہم ترامیم کرے گی۔ وہ ترامیم تو ہم کر لیں گے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ آپ کو بھی ساتھ لے کر چلیں۔ اگلی ٹرم عمران خان کی ہوگی، اس سے اگلی ٹرم میں ہم بلاول بھٹو صاحب کو وزیر اعظم بنا دیں گے۔ یہ دس سالہ منصوبہ تھا۔"

حامد میر کے مطابق پیپلز پارٹی نے ذرا ان سے بات آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا کہ اس دو تہائی اکثریت کے بعد آپ کیا ترامیم کریں گے۔ "سامنے یہ آیا کہ وہ ترامیم نہیں تھیں بلکہ پورا 1973 کا آئین ہی بدل دینا ہے، صدارتی نظام لایا جائے گا اور پیپلز پارٹی کے لئے سب سے بڑا دھچکا یہ تھا کہ اٹھارھویں ترمیم بھی ختم کرنی ہے"۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے جو لوگ اس بات چیت میں شامل تھے انہوں نے واپس آ کر بتایا کہ یہ تو اٹھارھویں ترمیم ہی واپس کرنے والے ہیں اور ہمارے پاس تو وقت ہی نہیں ہے۔ چھوٹے صوبوں کو جو تھوڑا بہت حق ملا ہے، وہ بھی ختم ہوگا۔ سینیئر صحافی نے کہا کہ اس پر پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا کہ PDM کے ساتھ تعلقات ٹھیک کیے جائیں، زرداری صاحب نے پہلے شہباز شریف سے بات کی، پھر نواز شریف سے براہِ راست رابطہ ہوا۔ "میری اطلاعات کے مطابق اٹھارھویں ترمیم پر مسلم لیگ ن کو کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن 1973 کا آئین ان کا مسئلہ ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ واحد دستاویز ہے جس نے پاکستان کے چاروں صوبوں کو جوڑ کر رکھا ہوا ہے"۔

اس حوالے سے آگے کیا ہوا، اس پر مزید بات کرتے ہوئے حامد میر نے بتایا کہ آرمی نے بار بار کہا تھا کہ وہ نیوٹرل رہیں گے۔ عمران خان صاحب کو بالکل یقین نہیں تھا کہ ان کے خلاف عدم اعتماد آئے گی۔ مقتدر حلقے بھی نہیں سمجھتے تھے کہ یہ تحریکِ عدم اعتماد واقعی آ جائے گی۔ تاہم، یہ نیوٹرل رہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی، شاہ زین بگٹی، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق وغیرہ علیحدہ نہیں ہو رہے تھے۔ عمران خان کی جماعت یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کہا گیا تھا کہ وہ عمران خان کو چھوڑ دیں اور اپوزیشن اتحاد کے ساتھ مل جائیں۔ انہوں نے کہا کہ میں چیلنج کرتا ہوں کہ معاملہ تو اس کے الٹ ہے۔ ان لوگوں کو اسٹیبلشمنٹ کے کچھ لوگوں نے بار بار رابطہ کر کے کہا کہ وہ عمران خان کا ساتھ نہ چھوڑیں، اسی وجہ سے پرویز الٰہی دوسری طرف پہنچ بھی گئے۔ پیپلز پارٹی کے لوگوں کو رابطہ کر کے کہا گیا کہ آپ جو مطالبات رکھیں گے وہ پورے ہوں گے لیکن آپ یہ عدم اعتماد واپس لیں۔ ن لیگ کے لوگوں کو کہا گیا کہ آپ نے کسی صورت یہ عدم اعتماد کامیاب نہیں کروانی۔ لیکن جب اس میں سے کچھ بھی نہ ہوا تو عمران خان نے بذریعہ پرویز خٹک جنرل باجوہ سے رابطہ کیا کہ ان کے خلاف عدم اعتماد رکوائی جائے اور وہ قبل از وقت انتخابات کے لئے تیار ہیں۔ حامد میر کے مطابق جنرل باجوہ نے یہ پیغام اپوزیشن تک پہنچایا تو انہیں کہا گیا کہ آپ تو خود کو نیوٹرل کہہ رہے تھے اور اب ہمارے پاس ان کے پیغامات لا رہے ہیں۔ اس پر جنرل باجوہ نے کہا کہ ہم بالکل نیوٹرل ہیں، یہ صرف پیغام آپ تک پہنچایا گیا ہے اور ہمیں زبردستی بھیجا گیا ہے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ اس موقع پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والی قیادت نے بڑی سخت باتیں بھی کیں۔

حامد میر نے مزید انکشاف کیا کہ کچھ لوگوں نے اتحادیوں کو misguide کرنے کی کوشش کی لیکن جب ادارے کے علم میں یہ بات آئی تو انہیں بھی manage کیا گیا کہ سب کو نیوٹرل رہنا ہوگا۔ جب سارے نیوٹرل ہو گئے تو تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو گئی۔ اب جب یہ کامیاب ہو گئی تو ادارے پر تنقید شروع ہو گئی۔ اب مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور ادارہ تینوں نہیں بتا سکتے کہ اصل میں ہوا کیا ہے۔ ہوا تو یہ کہ عمران خان نے ادارے کا کندھا استعمال کر کے خود کو بچانے کی کوشش کی اور ادارہ اپنا کندھا بچاتا رہا۔ 'آزادی مارچ' کے موقع پر بھی عمران خان جب اسلام آباد پہنچ گئے تو ان کے دائیں بائیں کھڑے لوگوں نے کالیں کر کر کے پوچھنا شروع کیا کہ ہم آگے آئیں یا نہ آئیں۔ انہیں آگے سے کہا گیا کہ ہم تو نیوٹرل ہیں، آپ نے خود فیصلہ کیا ہے، آگے کا فیصلہ بھی خود ہی کریں۔ لیکن اس موقع پر رانا ثنااللہ نے کسی طریقے سے پیغام پہنچایا کہ میرے پاس 1500 آنسو گیس کے شیل ہیں۔ ایک ہزار پورے مجمع کے لئے ہیں اور پانچ سو صرف آپ کے کنٹینر کے لئے ہیں۔ یہ بات جب کنٹینر پر پہنچی تو کنٹینر واپس مڑ گیا۔