میری بہن پر دباؤ ڈالا گیا کہ مجھے وعدہ معاف گواہ بننے پر مجبور کرے: احد چیمہ

میری بہن پر دباؤ ڈالا گیا کہ مجھے وعدہ معاف گواہ بننے پر مجبور کرے: احد چیمہ
مسلم لیگ ن کرپٹ ہے، یہ بیانیہ بنانے کے لئے مجھے گرفتار کیا گیا اور مجھ سے کہا گیا کہ شہباز شریف کے خلاف بیان دے دو تو آپ کو اندازہ بھی نہیں کہ آپ کو کتنی سپورٹ مل جائے گی۔ یہ کہنا ہے سابق بیوروکریٹ اور وزیر اعظم شہباز شریف کے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب مشیر رہنے والے احد خان چیمہ کا۔

2018 کے انتخابات سے پہلے 'کرپشن' کا بیانیہ بنانے کے لئے پکڑ دھکڑ کی گئی

صحافی طلعت حسین کو انٹرویو میں 38 ماہ کی قید کاٹنے والے بیوروکریٹ احد خان چیمہ نے بتایا کہ 2018 کے عام انتخابات تھے، جس طرح 2013 کے الیکشن کا بیانیہ 'لوڈشیڈنگ' تھا اسی طرح 2018 کے انتخابات کا ایجنڈا 'کرپشن' تھا۔ اس کے لیے ایک بیانیہ بنانے کے ضرورت تھی کہ مسلم لیگ ن کرپٹ ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت نے جو کام کیے تھے ان میں بدعنوانی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ کام عوام کے وسیع تر مفاد میں ٹھیک نہیں کیے گئے۔ چونکہ میں بطور مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی صوبائی حکومت کے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا حصہ تھا اس لیے مجھے نشانہ بنایا گیا۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کے میرے ساتھ ذاتی مسائل بھی ہوں لیکن اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔

میری گرفتاری پر بہت زیادہ میڈیا کوریج ہوئی

انہوں نے بتایا کہ اس بیانیے کے دو حصے تھے؛ ایک کرپشن کا امیج بنانا اور دوسرا وعدہ معاف گواہ تیار کرنا۔ میں نے چونکہ بہت کام کیا تھا تو میری گرفتاری پر بہت زیادہ میڈیا کوریج ہوئی۔ قریب قریب ایک سال تک بھی جب میں عدالت جایا کرتا تھا تو  اس پیشی پر پورا اخبار چھپتا تھا۔ ہر 10 دن کے بعد خبر کے ساتھ تمام الزامات اور سب کچھ پھر سے چھپتا تھا۔

وعدہ معاف گواہ بن جائیں تو پوسٹنگ بھی مل جائے گی اور پروموشن بھی

دوسرا ان کی کوشش تھی کہ وہ مجھے شہباز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے پر راضی کیا جائے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں شہباز شریف کے خلاف بیان دے دوں کہ جو کوئی بھی غلط کام کیا وہ شہباز شریف کے کہنے پر کیا۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ جیسے ان کے پاس ایک مفروضہ ہے کہ میں میاں صاحب کا فرنٹ مین ہوں اور منصوبوں میں سے پیسے لے کے ان کو دے رہا ہوں۔ تاہم یہ چیزیں جلد کھلتی چلی گئیں کیونکہ تمام منصوبوں میں شامل دیگر لوگوں کو بھی طلب کیا گیا، تحقیقات ہوئیں تو جب سب کچھ کلیئر ہوتا گیا تو وہ لوگ میرے ساتھ تھوڑے فرینک ہو گئے کہ یہ ہماری مجبوری ہے کیونکہ ہمارے اوپر پریشر ہے۔ آپ کے لیے ایک ہی آپشن ہے کہ آپ بیان دے دیں اور جائیں۔ آپ کو پوسٹنگ بھی مل جائے گی اور پروموشن بھی ہو جائے گی۔ آپ 'نیب' کے دوست بن جائیں گے۔ ورنہ آپ ان مقدموں کے نیچے دفن ہو کر رہ جائیں گے۔

چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال خود مجھے قائل کرنے آئے

اس قسم کی پیش کش کرنے والوں میں نیب کے ڈپٹی ڈائریکٹر، ایڈیشنل ڈائریکٹر اور ڈی جی شامل تھے۔ جب ان سے نہیں ہو پایا تو چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال خود مجھ سے ملاقات کرنے آئے اور انہوں نے کہا کہ ہماری بات مان لیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آپ کو اندازہ بھی نہیں کہ ہم آپ کو کتنا سپورٹ کریں گے۔ مجھے تاریخ بھی یاد ہے جب چیئرمین نیب مجھ ملنے آئے تھے۔ یہ 19 مارچ 2018 کی بات ہے۔

من گھڑت کہانی بنا کر شہباز شریف پر الزام لگانا سرا سر غلط تھا

اینکر سید طلعت حسین نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ نے کبھی سوچا نہیں کہ بس یہ بیان دے دوں اور جان چھڑوا لوں؟ اس پر احد چیمہ نے کہا کہ بالکل، بہت بار سوچا۔ ایک تو اصولی اور اخلاقی طور پر یہ بات ٹھیک نہیں تھی۔ دوسرا یہ سرا سر جھوٹ تھا۔ اگر کچھ غلط ہوتا اور میں اس کو چھپا لیتا تو میرے اندر یہ بات ہوتی کہ چھپانا چاہئیے یا نہیں۔ لیکن اگر مجھے کہا جائے کہ ایک من گھڑت کہانی بنائیں اور شہباز شریف پر الزام لگا دیں تو ایسا مجھ سے نہیں ہو سکا۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ میں نے ایسا کرنے کا سوچا بھی نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری رہنمائی کی۔

اہلیہ ملنے آئیں تو انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا

جب ان سے سوال کیا گیا کہ گرفتاری پر اہل خانہ کا کیا ردعمل تھا تو اس پر احد چیمہ نے بتایا کہ پہلے بچوں کو بتایا کہ اسلام آباد میں پوسٹنگ ہو گئی ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ ان کو بھی اندازہ ہو گیا کہ ضرور کچھ غلط ہوا ہے لیکن اس کے بارے میں بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ تب بچوں کی عمریں 4 سال اور 2 سال تھیں۔ جب وہ جیل میں ملنے آتے تھے تو انہیں یہی کہا جاتا تھا کہ آفس ہی ہے، یہاں کام سے آیا ہوا ہوں۔ جب میں واپس آیا ان کی عمریں 7 سال اور 5 سال ہو چکی تھیں۔ میرے اہل خانہ نے مجھے بہت سپورٹ کیا۔ مجھے کبھی کبھی لگتا تھا کہ یہ سب اتنا کچھ کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں، پتہ نہیں آئندہ اہلیہ جیل میں ملنے آئیں گی بھی یا نہیں۔ ایک دن جب اہلیہ مجھ سے ملنے آئیں تو ان کو بھی گرفتار کر لیا گیا اور 3 سے 4 گھنٹے تک ان سے بھی تحقیقات کی گئیں۔ میری بہن اور بہنوئی کو طلب کیا گیا اور انہیں پورا دن گرفتار رکھا گیا۔ مجھے کہا گیا کہ وعدہ معاف گواہ بن جاؤ۔ میری بہن کو کہا کہ اپنے بھائی کو سمجھاؤ تو میری بہن نے کہا مجھے اس کے پاس لے جاؤ اور میں اس سے کہوں گی جو یہ کہہ رہے ہیں وہ بالکل نہیں کرنا۔ اس سارے عرصے کے دوران یہ سب سے مشکل دور تھا۔

ہماری فیملی میں کئی لوگوں کی جائیدادیں اور اکاؤنٹس فریز کر دیے گئے

ہماری پوری فیملی میں کزنز، فرسٹ کزنز، سیکنڈ کزنز سمیت سب کی جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس فریز ہیں۔ میرا ایک کزن قطر میں اعلیٰ پروفیشنل عہدے پر تھا اس کے بھی وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے تھے۔ ہمیں وہ وارنٹ کینسل ہو جانے کے بعد علم ہوا۔

یاد رہے کہ 2013 سے 2018 تک پاکستان مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں جب شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اس وقت احد چیمہ ان کے مشیر تھے۔ 2018 کے انتخابات سے قبل کرپشن کا بیانیہ بنانے کے لیے گرفتار کیے جانے والے بیوروکریٹس اور سیاسی اشخاص میں سے سب سے پہلے احد چیمہ کو گرفتار کیا گیا تھا۔