پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اسد عمر نے اعتراف کیا ہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں الیکشن کی متفقہ تاریخ لے لینی چاہئیے تھی کیونکہ یہ ساری جدوجہد انتخابات کی تاریخ کے لیے ہی تو تھی۔
اے آر وائے نیوز کے پروگرام میں اینکر کاشف عباسی نے پی ٹی آئی کے سابق جنرل سیکرٹری اسد عمر سے پوچھا کہ جب آپ سب اکٹھے بیٹھتے ہوں گے تو یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ غلطی کہاں ہوئی؟ جو الیکشن مل رہے تھے وہ کیوں نہیں لیے؟ لگتا نہیں کہ آپ نے غلطی کر دی؟ اس پر اسد عمر نے جواب دیا کہ بالکل الیکشن لینے چاہئیں تھے۔ اگر تاریخ لے لیتے تو قومی اسمبلی جولائی میں تحلیل ہو جاتی۔ ہماری جانب سے 30 جون کو اسمبلی تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جو حکومت نہیں مانی۔ تاہم جولائی کی کسی تاریخ پر اسمبلی تحلیل ہو جانی تھی۔ اس پر ردعمل بھی بتا دیتا ہوں اور وہ یہ تھا کہ اوہو یہ تو اسمبلی کبھی بھی تحلیل نہیں کریں گے، بلف کال کر دو۔ آج جون بھی ختم ہونے کو ہے مگر الیکشن کہیں نہیں ہیں۔
اسد عمر نے بتایا اسلام آباد میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں عمران خان صاحب شریک نہیں تھے۔ ان کے علاوہ تقریباً تمام سینیئر قیادت موجود تھی اور حکومت سے مذاکرات کے لئے بنائی گئی کمیٹی کے تینوں ممبران یعنی شاہ محمود قریشی، علی ظفر اور فواد چودھری بھی میٹنگ میں موجود تھے۔ میں نے میٹنگ میں موجود تمام نفوس سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں الیکشن کی یہ تاریخ لینی چاہئیے یا نہیں؟ سوائے ایک شخص کے تمام قیادت کی متفقہ رائے تھی کہ یہ تاریخ لے لینی چاہئیے۔ یہ ساری جدوجہد ہم انتخابات کی تاریخ کے لیے ہی تو کر رہے تھے نا۔ خان صاحب کی جانب سے کہا جاتا کہ یہ بدنیت ہیں، یہ الیکشن نہیں کروا رہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ بدنیت تھے اور الیکشن نہیں کروا رہے تھے تو پھر اب بھی کیسے کروائیں گے؟
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ کہ مطالبہ مان کر ہم حکومت کو ایکسپوز تو کر سکتے تھے نا۔ حکومت کے لوگ سپریم کورٹ کے فورم سے ہو کر مذاکرات کے لیے آئے تھے۔ جب دونوں طرف مذاکرات کے لیے کوئی راہ ہموار نہیں ہو رہی تھی تو مذاکرات کے لیے سپریم کورٹ کے جیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے پلیٹ فارم دیا کہ اکٹھے بیٹھ کر تاریخ پر بات کریں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ اس وقت ہمیں اس ڈیل کو کلوز کرنا چاہئیے تھا۔ جو معاہدہ ہونا تھا اس کی تحریری کاپی سپریم کورٹ میں جمع ہونی تھی۔ اس کے بعد اگر حکومت اپنی بات اور اپنے معاہدے سے انحراف کرتی تو کم از کم ایکسپوز تو ہو جاتی۔
تحریک انصاف کے سابق جنرل سیکرٹری کا کہنا تھا کہ 1971 کے بعد سے اب تک ملک پر اتنا خطرناک وقت کبھی نہیں آیا تھا۔ سب نے جرم کیے ہیں تو اپنا نظام بہتر کریں۔ این آر او مت دیں۔ مگر سیاسی ڈائیلاگ سے منع نہیں کر سکتے۔ اس وقت ملک جس نہج پر پہنچ چکا ہے سب کو دو قدم پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ اپنی پوزیشن پر کمپرومائز کر کے حل نکالنا پڑے گا ورنہ ملک تباہی کی طرف جا رہا ہے۔ اس وقت ہم جس نہج پر پہچ چکے ہیں سب کو دو قدم پیچھے ہٹنا چاہئیے۔ اپنے حسبِ منشا نتائج کے حصول سے نیچے آ کر سمجھوتہ کرنا چاہئیے ورنہ ملک تباہی کی طرف جا رہا ہے۔
الیکشن کی تاریخ لینے پر چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے انکار کر دیا گیا تھا۔ لیکن یہ تاثر درست نہیں کہ پارٹی کے سب فیصلے عمران خان کرتے ہیں اور کسی کی بات نہیں سنتے۔ زیادہ تر فیصلے اوپن ڈسکشن کے بعد ہوتے ہیں۔ سب کی رائے لی جاتی ہے۔ انہوں نے کئی بار ڈسکشن کے بعد اپنی رائے بھی بدلی۔ لیکن جو بہت بڑے فیصلے ہوں ان پر وہ سب کی سن لیتے ہیں لیکن فیصلہ خود کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کے معاملے پر 80 فیصد ایم این ایز استعفے دینے کے خلاف تھے۔ میں اور شاہ محمود قریشی بھی اس فیصلے سے اختلاف کرنے والوں میں شامل تھے۔ فواد چودھری نے استعفے دینے کی حمایت کی تھی اور وہ آج بھی کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی چھوڑنا بہترین فیصلہ تھا۔ خان صاحب 2 دن تک سب کو سنتے رہے اور اس کے بعد فیصلہ دیا کہ میں استعفیٰ دینے جا رہا ہوں، آپ لوگوں نے ریزائن کرنا ہے تو کر دو اور نہیں کرنا تو نہ کرو۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل سے پہلے میں اور عمران خان ون آن ون بیٹھے تھے اور میں نے انہیں کہا تھا کہ کیا آپ کو اس بات کا احساس ہے کہ 99 فیصد کے قریب ایم پی ایز اسعفے دینے کے حق میں نہیں ہیں؟ اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ کابینہ میں اس فیصلے پر 99 فیصد لوگ اتفاق کرتے ہیں، سب لوگ مجھ سے ملتے ہیں اور مجھے بتاتے ہیں۔ تو میں نے انہیں کہا کہ میں بھی سب سے ملتا ہوں، وہ آپ کو کچھ کہتے ہیں اور ہمیں کچھ اور کہتے ہیں۔ اسد عمر نے بتایا کہ مجھے صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے والے فیصلے سے بھی اختلاف تھا۔ میں نے عمران خان سے کہا تھا کہ دھمکی کے لیے یہ زبردست آئیڈیا ہے، لیکن ایسا کرنا نہیں۔
اسی طرح الیکشن کی تاریخ کی پیشکش قبول کرنی ہے یا نہیں، یہ فیصلہ بھی چیئرمین کی صوابدید ہے۔ بڑے بڑے کامیاب اداروں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ بحث ہوتی ہے، سنتے سب کی ہیں مگر فیصلہ اتھارٹی کا ہوتا ہے۔
عمران خان کی حکمت عملی سے اختلاف رکھنے کے حوالے سے اسد عمر نے بتایا کہ میں ٹکراؤ کی سٹریٹجی سے متفق نہیں تھا۔ عمران خان لیڈر ہیں۔ ان کی صوابدید ہے وہ جو مرضی سٹریٹیجی لے کر چل سکتے ہیں۔ لیکن چیئرمین پی ٹی آئی جو سٹریٹجی لے کر چل رہے ہیں میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ سیکرٹری جنرل کا کام محض مفت مشورہ دینا ہی نہیں ہوتا بلکہ سٹریٹجی پر عمل بھی کرنا ہوتا ہے۔ میں جس حکمت عملی سے اختلاف کر رہا ہوں اس پر عمل بھی نہیں کروں گا۔ اس کے لیے تو کوئی ایسا شخص ہونا چاہئیے جس کو حکمت عملی پر یقین ہو۔
کاشف عباسی نے ان سے سوال کیا کہ یہ اختلاف 9 مئی کے بعد پیدا ہوا یا اس سے پہلے؟ تو اسد عمر نے جواب دیا کہ میں 9 مئی سے پہلے سے ہی اختلاف کر رہا تھا لیکن 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ ایک مختلف سطح پر تھا۔ اس سے پہلے ہم جو کچھ بھی ڈسکس کرتے تھے، 9 مئی کو وہ سب ہوتا نظر آیا۔ 9 مئی کو جو خطرات نظر آئے الارمنگ تھے۔ چاہے اس میں کچھ سازش والا عنصر بھی شامل ہو، لوگوں نے اس سے فائدہ بھی اٹھایا ہو گا لیکن کچھ ایسا تھا جو 9 مئی کو ملک میں ہوتا ہوا نظر آیا۔ میں صرف تحریک انصاف کی نہیں بلکہ پاکستان کے تمام پلیئرز کی بات کر رہا ہوں۔ میں بارہا کہتا آیا ہوں کہ ہم خطرے کو 'انڈر ایسٹیمیٹ' کر رہے ہیں اور 9 مئی خطرے کی گھنٹی تھا۔ ہم سب کو ایک قدم پیچھے ہو کر دیکھنا چاہئیے۔ 9 مئی کے بعد یہ اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ ایک قدم پیچھے ہٹ کر دیکھیں۔ میرے سامنے 9 مئی کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوئی۔ جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس کمیٹی میں بھی میں شامل نہیں تھا۔
اسد عمر کے مطابق سیاسی معاملات حل کرنا سیاست دانوں کا کام ہوتا ہے۔ یہ کہہ دینا کہ سیاست دانوں سے بات ہی نہیں کریں گے سیاسی رویہ نہیں۔ پی ٹی آئی پاکستان کی ایک سیاسی حقیقت ہے جس کو 2018 کے انتخابات میں 1 کروڑ 68 لاکھ لوگوں نے ووٹ دیا تھا۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے ان انتخابات میں مجموعی طور پر سوا 2 کروڑ ووٹ لئے تھے۔ آپ سیاسی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ جن کو سوا 2 کروڑ عوام نے ووٹ ڈالے ہیں آپ ان کے ساتھ بات ہی نہیں کرو گے۔
آج کی تاریخ میں سب پی ٹی آئی رہنماؤں اور الیکٹ ایبلز کی خواہش ہے کہ پی ٹی آئی اور فوج کے تعلقات ٹھیک ہو جائیں۔ کیونکہ سب کو لگ رہا ہے کہ اگر یہ تعلقات ٹھیک نہ ہوئے تو آگے سیاسی طور پر راستے بند ہو جائیں گے اور ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جب پریس کانفرنس کر کے عہدے چھوڑے تو اسی وقت کہا تھا کہ آج الیکشن کروا دیں پی ٹی آئی جیت جائے گی۔ یہ بات بالکل درست ہے۔ میرے پیچھے ہٹنے سے میرے سیاسی امیج پر اثر پڑے گا۔ پی ٹی آئی کے سپورٹرز میری بات سے زیادہ چیئرمین پی ٹی آئی کی بات مانیں گے۔ میں پی ٹی آئی کو ہی دیکھ کر سیاست میں آیا تھا، اگر پی ٹی آئی نہیں ہو گی تو سیاست چھوڑ دوں گا۔
انہوں نے کہا کہ مائنس ون کی بہت بات ہوتی ہے لیکن پی ٹی آئی کا ووٹ بنک چیئرمین پی ٹی آئی کی وجہ سے ہے۔ ارکان محض اپنے زور پر سیٹ نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ مائنس ون ایک صورت میں ہو سکتا ہے اگر عمران خان خود اپنے آپ کو مائنس کر لیں۔ اگر الیکشن ہوا اور پی ٹی آئی کا ٹکٹ ملا تو الیکشن لڑوں گا۔