عراق میں مارچ 1991 کا انقلاب جنگ خلیج میں جنگ بندی کے دوران شمالی اور جنوبی عراق میں اٹھنے والی مشہور بغاوتوں کا ایک سلسلہ تھا جو عراق کے شیعہ اور کرد سنی علاقوں میں اس خیال سے اٹھا کہ صدام حسین کو حکومت سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ یہ تصور دو سابقہ جنگوں کے نتائج کا نتیجہ تھا: ایران – عراق جنگ اور خلیجی جنگ، یہ دونوں ایک ہی دہائی کے اندر واقع ہوئی تھیں اور عراقی معیشت کو تباہ کر دیا تھا۔ نجف میں مقیم اہل تشیع کے مرجع اعلٰی آیت الله خوئی نے ایران اور اس کے بعد کویت پر حملے کو حرام قرار دیا تھا جس کی وجہ سے عراقی شیعہ مسلح افواج میں بھرتی نہیں ہوتے تھے اور شیعوں کو جبری طور پر بھرتی کیا جاتا رہا تھا۔ ان کے علاوہ سنی فوجیوں میں بھی ہمسایہ ممالک کے خلاف مسلسل جنگیں چھیڑنے کی وجہ سے صدام سے ناراضگی پائی جاتی تھی اور اس طرح فوج میں صدام کے خلاف بغاوت بھڑک اٹھی۔
1979 کے ایرانی انقلاب کی طرح ابتدائی دو ہفتوں کے اندر عراق کے بیشتر شہر اور 18 میں سے 14 صوبے باغی قوتوں کے ہاتھوں چلے گئے۔ اس انقلاب میں بھی عوام کے سبھی گروہ شریک تھے جن میں فوجی، شیعہ عوام، کرد سنی اور بائیں بازو کے شیعہ و سنی گروہ شامل ہیں۔ ابتدائی فتوحات کے بعد انقلاب کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ صدام نے شاہ ایران کے تجربے سے سبق سیکھتے ہوئے دار الحکومت کو شرافت سے چھوڑنے کے بجائے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس صورت میں نہ تو کسی عالمی طاقت نے عراقی عوام کی حمایت کی نہ ہی ایران نے شیعہ عوام، آیت الله خوئی یا کربلا و نجف کے مزارات کو بچانے کے لئے اپنی فوج کو میدان میں اتارا۔ صدام کی عرب سنی اکثریت والی بعث پارٹی کی حکومت نے بغداد کے دارالحکومت پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل کی اور جلد ہی عراقی ریپبلیکن گارڈ کی قتل و غارت نے باغیوں کو بڑی حد تک دبا دیا۔ تقریباً ایک ماہ کے مختصر دورانیے میں لاکھوں افراد ہلاک اور تقریباً 20 لاکھ افراد بے گھر ہو گئے۔ تنازعے کے بعد عراقی حکومت نے دجلہ – فرات کے دوآبے سے آهواری عرب دیہاتیوں کی جبری نقل مکانی کو تیز کر دیا۔ خلیجی جنگ کے اتحادیوں نے شمالی اور جنوبی عراق میں نو فلائی زون قائم کیے اور کرد حزب اختلاف نے عراقی کردستان میں کرد خودمختار جمہوریہ کا اعلان کیا۔
عراقی عوام کو قیام کی دعوت
ایران کے حکمران آیت الله خمینی مسلسل عراقی عوام کو صدام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دیتے رہے تھے۔ انہوں نے بارہا کہا تھا کہ:
''عراقی عوام کو بھی ایرانی مسلمانوں کی طرح ظالم اور جابر حکومت کے خلاف قیام کرنا چاہیے۔ صدام ایک ظالم اور جابر حاکم ہے جس نے عراق کے علما کا ناحق خون بہایا ہے۔ اس کے علاوہ صدام نے عراق کے مسلمانوں پر طرح طرح کے ظلم کیے ہیں۔''[1]
صرف یہی نہیں، سید قطب کے اسلامی فاشزم اور ملا صدرا کے غیر سائنسی تخیلات میں مگن رہنے والے درباری علما، جیسے مولوی عبداللہ جوادی وغیرہ، بھی عراقی عوام کو کوفی کہتے اور آیت الله خوئی کے خلاف خطبے دیتے تھے۔ قم میں آیت الله خوئی کے دفتر کو آگ لگائی گئی تھی۔[2] آیت الله خوئی کے نزدیک فاشزم کا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ اپنے پیشرؤوں، آیت الله کاظم خراسانی اور آیت الله نائینی کے راستے پر چلتے ہوئے اسلامی فاشزم کو مسترد کرتے اور علما کو سیاسی منصبوں سے الگ رہنے کی تلقین کرتے تھے۔[3]
صدام کے کویت پر حملے کے بعد 15 فروری 1991 کو امریکا کے صدر، جارج ڈبلیو بش نے وائس آف امریکہ ریڈیو کے ذریعے عراقیوں کو مخاطب کرتے ہوئے ایک تقریر کی جس میں انھیں صدام حسین کے خلاف انقلاب برپا کرنے کی دعوت دی گئی۔
”خونریزی کو روکنے کے لئے ایک اور راستہ بھی موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ عراقی فوج اور عراقی عوام معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیں اور آمر صدام حسین کو ایک طرف ہو جانے پر مجبور کریں اور پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کریں اور امن پسند قوموں کی صف میں دوبارہ شامل ہوں۔"[4]
انقلاب
انقلاب کا آغاز جنوبی عراق سے ہوا اور عراقی فوج کے مایوس فوجی، حکومت مخالف جماعتوں کے ممبران، خاص طور پر حزب دعوہ اسلامیہ اور مجلس اعلیٰ عراق کے کارکنان نے اس کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے فروری کے آخر میں بصرہ کے جنوب میں واقع ابوالخصیب اور الزبیر کے قصبوں میں بغاوت ہوئی۔ یکم مارچ 1991 کو خلیجی جنگ بندی کے ایک دن بعد کویت میں عراق کی شکست کے بعد وطن واپس لوٹنے والے ایک T-72 ٹینک نے بصرہ کے مرکزی چوک پر نصب صدام حسین کی تصویر پر گولہ داغا اور باقی فوجیوں نے نعرے بلند کیے۔ بصرہ میں بغاوت کی شروعات ایک فوجی افسر محمد ابراہیم ولی نے کی، جس نے شہر میں سرکاری عمارتوں اور جیلوں پر حملہ کرنے کے لئے فوجی گاڑیوں کی ایک نفری جمع کی تھی۔ اس واقعے کی خبر، ایرانی درباری مولویوں کی مذہبی بلیک میلنگ اور بش کے ریڈیو پیغامات نے عراقی عوام کو دوسرے شہروں اور قصبوں میں حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کی ترغیب دی۔ نجف میں شہر کی سب سے بڑی امام علی مسجد کے قریب صدام کے حامی اور مخالف فوجیوں کے مابین جنگ ہوئی۔ انقلابیوں نے شہر پر قبضہ کیا اور بعث پارٹی کے عہدے دار شہر سے فرار ہوگئے یا مارے گئے۔ قیدیوں کو جیلوں سے رہا کیا گیا۔ یہ بغاوت چند ہی دنوں میں جنوبی عراق کے سب بڑے شیعہ شہروں: عمارہ، دیوانیا، حلہ، کربلا، ناصریہ اور سماوہ تک پھیل گئی۔ چھوٹے چھوٹے شہر بھی انقلاب میں شامل ہو چکے تھے۔ شہروں پر حکومتی کنٹرول ختم ہونے کے بعد آیت الله خوئی نے نظم و ضبط کو سنبھالنے کے لئے مختلف شہروں میں اپنے نمائندے بھیجے اور نو افراد کی شوریٰ بنائی۔ انہوں نے بے گناہ افراد کو قتل کرنے یا کسی کی املاک کو لوٹنے کو حرام قرار دیا۔
ایران عراق جنگ کے دوران آیت الله خمینی کی باتوں پر عمل کرنے کے لئے ایران جا کر تربیت حاصل کرنے والوں میں البدر بریگیڈ سمیت بہت سے جلاوطن عراقی سرحدوں کو عبور کر کے بغاوت میں شامل ہو گئے۔ صدام مخالف سنی، فوج کے ناراض ارکان، عراقی کمیونسٹ پارٹی بھی انقلابیوں سے آ ملے تھے۔ ولایت فقیہ پر یقین رکھنے والی مجلس اعلیٰ نامی تنظیم نے اپنی کوششیں شیعوں کے مقدس شہروں نجف اور کربلا پر مرکوز کیں، اور ان شیعوں کو دھمکانا شروع کر دیا جو اخوانی شیعیت اور ولایت فقیہ پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ایرانی انقلاب کی طرح بہت سے بے گناہ سرکاری اہلکار محض ملازمت کی وجہ سے قتل کیے گئے۔ انہوں نے بغداد کی طرف پیش قدمی کی جرات کرنے کے بجائے اخوانی خیالات کا اظہار کرنا شروع کیا اور علما کی مطلق اطاعت کی تعلیم دی جس سے ایرانی انقلاب کے بعد اختلاف رائے رکھنے والوں کے ساتھ کیے گئے سلوک کی یاد تازہ ہو گئی۔ ایرانی لابی کی ان حرکتوں کی وجہ سے جہاں اخوانی ماڈل سے اختلاف رکھنے والے عراقی بد دل ہوگئے وہیں امریکا نے بھی عراقی انقلاب کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔[5]
کرد سنی آبادی والے شمالی عراق میں کچھ ہی دیر بعد شورش کی ایک اور لہر شروع ہو گئی۔ شمال میں بغاوت کا علم کردوں کی دو حریف ملیشیاؤں اتحاد وطنی کردستانی اور کردستان ڈیموکریٹک پارٹی نے بلند کیا تھا۔ مسیحیوں کی آشوریٰ ڈیموکریٹک موومنٹ کے ساتھ ساتھ حکومت کے حمایتی کرد لشکر ”جھش“ نے بھی بغاوت کر دی جس سے انقلاب کو کافی توانائی حاصل ہو گئی۔ شمال میں بغاوت 5 مارچ کو رانیہ شہر میں شروع ہوئی۔ 10 دن کے اندر کرد قوم پرست (پشمرگہ)، اسلامی فاشزم کے علمبردار (اسلامی تحریک کردستان)، اور کردستان کی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے ہزاروں افراد نے شمال کے ہر شہر پر قبضہ کر لیا۔ سلیمانیہ میں باغیوں نے سیکرٹ پولیس کے علاقائی ہیڈکوارٹر، ڈائرکٹوریٹ آف جنرل سکیورٹی، کو گھیرے میں لے کر قبضہ کر لیا اور بغیر کسی مقدمے کے کئی سو بعثی عہدیداروں اور سکیورٹی کے افسروں کو ہلاک کیا۔ انہوں نے تین سال قبل 1988 میں ہونے والے ”آپریشن الانفال“ سے متعلق بہت ساری سرکاری دستاویزات بھی قبضہ میں لیں جس میں سرکاری فوج نےہزاروں عراقی کردوں اور دیگر نسلی اقلیتوں کے افراد کو منظم طریقے سے ہلاک کیا تھا۔[6]
صدام نواز دستوں کا حملہ
جلد ہی حکومت کے وفادار دوبارہ منظم ہو گئے اور شہروں پر دھاوا بول دیا۔ صدام کے قابل اعتماد ریپبلیکن گارڈ کے آدھے ٹینک کویت کی جنگ سے محفوظ فرار میں کامیاب رہے تھے اور گارڈ کے ہیڈ کوارٹر یونٹ بھی اس جنگ میں محفوظ رہے تھے۔ 3 مارچ کے جنگ بندی معاہدے میں عراقی فوج کے جہازوں کے اڑنے پر پابندی عائد تھی، لیکن انھیں ہیلی کاپٹر اڑنے کی اجازت دی گئی تھی کیونکہ زیادہ تر پل تباہ ہو چکے تھے۔[7]
تاہم جلد ہی صدام نے بغاوت کو ختم کرنے کے لئے ہیلی کاپٹروں کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ باغیوں کے پاس کچھ بھاری ہتھیار اور چند زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل تھے، جو گن شپ ہیلی کاپٹر اور توپ خانے کی اندھا دھند گولہ باری کے سامنے جلد ہی بے دفاع ہو گئے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق شہروں پر دوبارہ قبضہ کرنے کے دوران اور قبضہ کرنے کے بعد صدام نواز قوتوں نے اندھا دھند فائرنگ کر کے ہزاروں افراد کو ہلاک کر دیا۔ کئی لوگوں کو سڑکوں، اسپتالوں اور گھروں میں پھانسی دے دی۔ گھر گھر تلاشی کے دوران خاص طور پر نوجوان مردوں کی پکڑ دھکڑ اور ذرا سے شک پر گرفتار کرنے یا قتل کرنے؛ اور شہروں سے بھاگنے کی کوشش کرنے والوں پر ہیلی کاپٹروں کا استعمال کرتے ہوئے بلا اشتعال فائرنگ کرنے جیسے جرائم کیے گئے۔[8]
جنوب میں، صدام کی افواج نے مارچ کے آخر تک مزاحمت کو منتشر کر کے سب کو ختم کر دیا۔ 29 مارچ کو پیشمرگہ کو کرکوک سے بے دخل کرنے کے بعد سرکاری ٹینک 30 مارچ کو دہوک اور اربیل، یکم اپریل کو زاخو اور 3 اپریل کو باغیوں کے زیر قبضہ آخری اہم شہر سلیمانیہ میں داخل ہو گئے۔ حکومتی دستوں کی پیش قدمی قلادز کے کھنڈرات کے قریب واقع ایک تنگ وادی کور میں رک گئی، جہاں مسعود برزانی کی سربراہی میں کردوں نے کامیاب دفاع کیا۔ 5 اپریل کو، حکومت نے ”عراق کے تمام شہروں میں بغاوت، تخریب کاری اور فسادات کےمکمل خاتمے“ کا اعلان کیا۔ اسی دن، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 688 کی منظوری دی جس میں عراقی حکومت نے کردوں پر ہونے والے جبر کی مذمت کی اور عراق سے اپنے شہریوں کے انسانی حقوق کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا۔ آیت الله خوئی کو تا دم مرگ نظر بند اور ان کے دو بیٹوں کو قتل کر دیا گیا۔ 1994 میں عراقی کردستان میں دوبارہ بغاوت اٹھی جسے تین سال بعد دبا دیا گیا۔ 2003 میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد شیعہ علاقوں میں سینکڑوں اجتماعی قبریں سامنے آئیں۔[9] صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسے اور اس کے اہم عہدہ داروں کو سزائے موت سنائی گئی۔ ایران کے درباری علما نے آیت الله خوئی کی وفات کے بعد آیت الله سیستانی کے خلاف خطبے دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔[10] اس ماضی کی وجہ سے ہی آیت الله سیستانی ایرانی رہبر کے قریبی افراد سے ملاقات نہیں کرتے۔ حال ہی میں مستقبل کے رہبر سمجھے جانے والے ایرانی چیف جسٹس آیت الله ابراہیم رئیسی عراق گئے تو آیت الله سیستانی نے ان سے ملاقات نہیں کی۔[11]
فلمیں
جنوبی بغاوت پر 1999 میں ڈیوڈ او رسل نے فلم ”تھری کنگز“ اور 2008 میں عباس فاضل نے فلم ”ڈان آف دی ورلڈ“ بنائی۔ اس کے علاوہ 1993 میں فرنٹ لائن نے ایک دستاویزی فلم ”صدامز کلنگ فیلڈز“ بھی بنائی۔ فرنٹ لائن کی ڈاکومنٹری کو اس لنک پر دیکھا جا سکتا ہے: https://www.youtube.com/watch?v=Z_q3wE0nFTI
[1] امام خمینی (رح) صدام حسین کو پاگل کیوں کہتے تھے؟
[2] صحبت های تکان دهنده درباره مظلومیت آیت الله سیستانی و استاد بزرگوارش آیت الله خویی
[3] سید ابوالقاسم خویی، صراط النجاه، ج 1، مبحث الاول، سوال 1 تا 6، دفتر نشر برگزيده (١٤١٦ھ)
[4] ""Unfinished War - CNN.com - Transcripts"". Transcripts.cnn.com. 2001-01-05. May 4, 2012
[5] Why the Uprisings Failed by Faleh A. Jabar
[6] Why the Uprisings Failed by Faleh A. Jabar
[7] 1991 Victory Over Iraq Was Swift, but Hardly Flawless
[8] The 1991 Uprising in Iraq And Its Aftermath
[9] The 1991 Uprising in Iraq And Its Aftermath
[10] صحبت های تکان دهنده درباره مظلومیت آیت الله سیستانی و استاد بزرگوارش آیت الله خویی
[11] The 1991 Uprising in Iraq And Its Aftermath