کیا سوشل میڈیا پر پابندی لگانا ہی مسئلے کا واحد حل ہے؟

اس کا حل پابندیاں نہیں بلکہ جس طرح سے پوری دنیا میں مختلف سافٹ ویئرز اور سائبر کرائم کنٹرول کے اداروں کی مدد سے اس معاملے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ایسے ہی ہمیں بھی اپنے آئی ٹی ایکسپرٹس کے ذریعے سے اس جنگ کو جیتنا ہو گا۔

کیا سوشل میڈیا پر پابندی لگانا ہی مسئلے کا واحد حل ہے؟

اس وقت دنیا میں سوشل میڈیا کے ذریعے سے آزادی اظہار رائے کو بنیادی انسانی حقوق کا درجہ حاصل ہے اور اس کی آسان و تیز رفتار رسائی کے سبب عوامی مقبولیت نے اس کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے لیکن اس میں جو بنیادی مسئلہ ہے وہ اس کے غلط استعمال میں جوابدہی کا کمزور میکنزم ہے جس نے ریاستوں کے انتظامی معاملات سے لے کر سیاسی اور سفارتی تعلقات تک متاثر کردہ اس کا بڑھتا ہوا دائرہ ہے جس نے ریاستوں کی سالمیت کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔

ڈیجیٹل کمپنیاں جو سوشل میڈیا کی مالک ہیں وہ اس وقت معیشت اور جنگی ٹیکنالوجی کے بعد عالمی طاقت کے ایک تیسرے مؤثر ہتھیار کے طور پر پہچانی جانے لگی ہیں جن کو مبینہ طور پر جاسوسی سے لے کر عوامی ڈیٹا حاصل کر کے مختلف مقاصد کے لئے استعمال کرنے اور عوامی رائے کو ہموار کرنے تک کا کام لیا جا رہا ہے۔ اس وقت کوئی بھی ریاست ایسی نہیں جو ان کے عمل دخل سے متاثر نہ ہو رہی ہو جن میں عرب سپرنگ سے لے کر موجودہ امریکی ایوان نمائندگان میں ٹک ٹاک پر پابندی کے بل کی منظوری جیسے اقدامات شامل ہیں۔

اس میں بظاہر تو کمپنی کی ملکیت کی تبدیلی کی اہمیت اور افادیت کو بنیاد بنایا گیا ہے لیکن اس پر امریکہ کے صدارتی انتخابات کے امیدواران کے درمیان عوامی سطح پر جو بحث چھڑ گئی ہے اس سے اس کے سیاسی خدشات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ماضی میں متاثر ہونے والی کمپنی بائٹ ڈانس کے ساتھ اختلاف ہونے کے باوجود اس پابندی کی مخالفت کی ہے اور ماضی کے صدارتی انتخابات میں بھی سوشل میڈیا کے عمل دخل سے حمایت کے الزامات کا پرچار رہا ہے اور دنیا کی تمام بڑی طاقتیں سوشل میڈیا کے سیاسی عمل میں دخل اندازی کے الزامات کا اظہار کرتی ہوئی دیکھی جا رہی ہیں۔

سوشل میڈیا کے جہاں مثبت اثرات ہیں وہاں اس کے جھوٹے الزامات اور بد اخلاقی پر مبنی بیانیوں کے پروپیگنڈے کے منفی اثرات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا اندازہ سیاسی شعور کے نام پر اخلاقی تباہی سے لگایا جا سکتا ہے جس کے اندر ادب، تعظیم، بردباری اور برداشت ناپید ہو چکی ہے۔ اگر اب بھی ان سادہ ذہنوں پر انسانی بنیادی حقوق کی آڑ میں پھیلائی جانی والی اخلاقی تباہی، تخریبی سرگرمیوں اور انتشاری سوچوں کو کنٹرول نہ کیا گیا تو یہ جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہوگا جس سے کئی ریاستوں کو بہت بڑی خانہ جنگی جیسی تباہیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ایسے ہی بیانیے پاکستان میں بھی پچھلے کئی سالوں سے چلائے جا رہے تھے جن سے نہ صرف سیاسی عدم استحکام پیدا کر کے معاشی تباہی لائی گئی بلکہ ریاست اور اداروں کے خلاف جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا کے ذریعے سے سالمیت کو بھی خطرے میں ڈال دیا گیا جس کے ردعمل میں حکومت کو مجبوراً سوشل میڈیا کے اس نیٹ ورک کو توڑنے کے لئے حکمت عملی اپنانی پڑی جو سوشل میڈیا اور خاص طور پر ایکس کی سروس متاثر ہونے کی بنیادی وجہ بنیں۔

مگر اس کا حل پابندیاں نہیں بلکہ جس طرح سے پوری دنیا میں مختلف سافٹ ویئرز اور سائبر کرائم کنٹرول کے اداروں کی مدد سے اس معاملے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ایسے ہی ہمیں بھی اپنے آئی ٹی ایکسپرٹس کے ذریعے سے اس جنگ کو جیتنا ہوگا۔ ان بے بنیاد الزامات کو بے نقاب کر کے عوامی تاثر کو بدلنا ہوگا وگرنہ یہ پابندیاں اس ریاست مخالف شور و غوغے کو مزید تقویت دیں گی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تاثر مزید ابھرے گا۔

اس پر کسی کو بھی اختلاف نہیں کہ سوشل میڈیا آزادی اظہار رائے کا ایک ذریعہ ہے اور اس پر پابندی سے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں مگر انسانی بنیادی حقوق کسی بھی صورت اپنی حدود و قیود، نظم و ضبط اور ملکی آئین و قانون سے ماورا آزادی کے دعوے دار نہیں اور نا ہی شہریوں، انسانی حقوق کی تنظیموں یا صحافتی شعبوں سے وابستہ افراد کو اپنے حقوق کی آڑ میں ذمہ داریوں سے ماورائے آئین و قانون اقدام اٹھانے پر تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

جس طرح سے ہمارے ہاں اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے دنیا میں اس طرح کی اجازت کہیں بھی نہیں دی جاتی کہ سب آئینی و قانونی اور اخلاقی حدود عبور کر دی جائیں جس کا اندازہ آپ کو ان نام نہاد انسانی حقوق اور صحافت کے علم برداروں کی سوچ اور عمل سے بھی ہو سکتا ہے۔ پچھلے دنوں جب قانونی ادارے حرکت میں آئے تو انہوں نے اپنے اکاؤنٹس سے پوسٹس کو ڈیلیٹ کرنا شروع کر دیا جو بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے اندر اپنی کمزور بنیادوں اور قانونی خلاف ورزیوں کا احساس موجود تھا جو قانونی اداروں کی طرف سے درگزر کیے جانے کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے تھے۔

جہاں سوشل میڈیا پر آزادی اظہار رائے کو ایک بنیادی انسانی حق کا درجہ حاصل ہے وہیں اس کی آڑ میں تخریبی اور انتشاری سوچوں کو پھیلا کر ملکی امن اور سلامتی کو جھوٹے الزامات کی بنیاد پر خراب کرنا بھی محض ایک قومی ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر جرم سمجھا جاتا ہے اور کسی بھی خود مختار ریاست کے اندر اس کی قطعاً اجازت نہیں دی جا سکتی۔

قومی اور عالمی قوانین میں بھی ریاستوں کو اپنی سالمیت کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لئے بنیادی انسانی حقوق کی معطلی کی گنجائش موجود ہے اور ہر ریاست ان کے اطلاق کا حق رکھتی ہے۔ جس طرح سے 9 مئی کو ریاست نے سوشل میڈیا کی سروس کو معطل کر کے دہشت گردی پر قابو پایا وہ عمل صرف قومی و عالمی قوانین سے مطابقت ہی نہیں رکھتا تھا بلکہ عوامی تحفظ اور قومی سالمیت کی خاطر اٹھایا جانے والا عوامی سطح پر ایک قابل تحسین عمل تھا جس پر اختلاف کو قانونی طور پر اور نا ہی اخلاقی طور پر سراہا جا سکتا ہے۔

انسانی حقوق اور صحافت سے منسلک ایکٹوسٹس کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حقوق اور ذمہ داریوں میں توازن کو قائم رکھتے ہوئے نا صرف اپنے کام میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کریں بلکہ اس کا سبب بننے والے ایسے عناصر جو ان حقوق کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنی تشہیر کی خاطر قومی اور شہری ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہیں اور ریاست کے خلاف بے بنیاد الزامات سے عالمی سطح پر قومی تشخص کو خراب کرتے ہیں، ان کو بھی بے نقاب کر کے ریاست کے دست و بازو بنیں تا کہ انسانی حقوق کی پاسداری کے تصور کو عملی جامہ پہنانا آسان بنایا جا سکے کیونکہ ایک خود مختار ریاست کے تصور میں حقوق کی پاسداری کو تب ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے جب اس کو امن اور سالمیت میں مکمل تقویت حاصل ہو۔ یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بنیادی حقوق کی آزادی کو ریاستی سالمیت اور عوامی امن پر ترجیح دی جا سکتی ہے اور نا ہی کسی خود مختار ریاست کا آئین و قانون یا عالمی قوانین اس کی حمایت کرتے ہیں۔

جیسے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو عوامی تاثرات کی بنیاد پر آئینی و قانونی پہلوؤں کو نظر انداز کرنے کی خواہشوں کے پیش نظر بد اخلاقی کا نشانہ بنایا گیا، ماضی کے واقعات پر استدلال کرتے ہوئے فوجی ادارے کو براہ راست دھاندلی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے یا ایک خاتون وزیر اعلیٰ کے لباس بارے برانڈز کو ڈسکس کیا جاتا ہے، یہ کون سی تحقیقاتی صحافت ہے جس کی خاطر ان عناصر کا بنیادی حق آزادی اظہار رائے خطرے میں دکھائی دے رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان پابندیوں کے اصل ذمہ دار ہی اس طرح کی صحافت اور انسانی حقوق کی آواز اٹھانے والے ہیں جن کی وجہ سے سب کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث زیادہ تر عناصر بیرونی ممالک میں بیٹھ کر عوامی ذہنوں کو خراب کر کے سالمیت کے لیے خطرہ بنتے ہیں۔ ان کو وہاں آسودہ حال رہن سہن میں یہاں کے امن، خوشحالی اور حب الوطنی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ ان کا مقصد ہی امن عامہ کو خراب کر کے اپنے مالی فوائد کا حصول ہوتا ہے اور سادہ ذہن لوگ ان کی سازشی سرگرمیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

انسانی حقوق اور اصولی صحافت کرنے والے کبھی بھی اس طرح کے جھوٹے بیانیے کی حمایت نہیں کرتے بلکہ اگر انسانی حقوق کو انسانی ترقی کے متعلق ہمارے عالمی سطح پر اعداد و شمار کی بنیاد پر درجہ بندی کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو بات سمجھنا مزید آسان ہو جاتا ہے جس میں ہم 161 ویں نمبر پر ہیں جس کے براہ راست اثرات ہمارے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی کارکردگی پر بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے بغیر یہ لوگ انسانی حقوق کی خلاف وزریوں پر ریاست کے تشخص کو مجروح کرتے ہیں جس سے نا صرف ان کے اندر حب الوطنی کے فقدان کی بلکہ ان کی علمی نا اہلی کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔