Get Alerts

پاکستان میں انٹرنیٹ کے جہاں میں جرائم کی کہانی: 'بیشتر افراد کو معلوم ہی نہیں کہ سائبر کرائم کے خلاف مدد کہاں سے حاصل کی جائے'

پاکستان میں انٹرنیٹ کے جہاں میں جرائم کی کہانی: 'بیشتر افراد کو معلوم ہی نہیں کہ سائبر کرائم کے خلاف مدد کہاں سے حاصل کی جائے'
تصویر بشکریہ پرو پاکستانی


قریب شام کا وقت تھا انسانی سائے لمبے ہو رہے تھے، پہاڑ جیسا بوجھ اپنے سینے میں دفنائے وہ اپنے گھر کے ایک نیم تاریک کمرے میں بیٹھی خیالوں کی وادی میں غرق تھی اسکے چہرے کے تاثرات سے اسکی پریشانی کا اندازہ با آسانی لگایا جا سکتا تھا۔



نعیمہ بلوچ خواتین کے حقوق کے لئے جدو جہد کرنے والی فعال کارکن کی حیثیت سے جانی اور پہچانی جاتی ہے، اب اسکی یہی فعالیت پریشانی کا سبب بن رہی ہے۔ حال ہی میں نعیمہ زہری کے نام سے جعلی انسٹاگرام اور ٹویٹر کے اکاونٹس بنائے گئے تب سے وہ اکاونٹس نعیمہ کے ذاتی تصاویروں کی تشہیر سمیت پراپیگنڈہ کر رہے ہیں، جسکی وجہ سے نعیمہ زہری نے سماجی کاموں کو ترک کر کے اپنے آپ کو گھر کے ایک کمرے تک محدود کر دیا ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کے نام سے جعلی اکاونٹ بنانا بالواسطہ طور پر اسے ہراساں کرنا اور دھمکی دینا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کی بات کرنا ترک کر دے۔



سردار بہادر خان یونیورسٹی سے حال ہی میں شعبہ ابلاغیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے والی نعیمہ زہری کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار سے ہے۔ سنہ ء 2017 کو پاکستان میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق خضدار ضلع کی کل آبادی 802,207 ہے، جس میں سے خواتین کی تعداد380,939 ہے۔ نعیمہ زہری نے آخری بار 2019 کے اختتام پر کوئٹہ میں منعقد ہونے والا عورت آزادی مارچ میں حصہ لیا تاہم اب وہ پہلے جیسی فعال سماجی کارکن نہیں رہی۔



 انہوں نے بتایا کہ" میں ابھی تک ذہنی تکلیف میں مبتلا ہوں، سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سے بننے والے میرے دوستوں نے جب مجھے میرے ہی نام سے منسلک جعلی ٹویٹر اور انسٹاگرام اکاؤنٹس کے اسکرین شاٹس بھیجے تو مجھے اس وقت یقین نہیں آرہا تھا اور میں نے فوری طور پر ان اکاونٹ کو سرچ کیا اور  وہاں میرے نام سے ایسے مواد کی تشہیر کی جا رہی تھی جو کہ میرے لئے کافی مشکلات کھڑی کرنے والی تھی جس سے مجھے شدید نقصان ہوسکتا تھا اور میں اپنے گھر والوں سے بھی بات کرنے سے ڈر رہی تھی"۔



کسی آن لائن خطرہ کی صورت میں نعیمہ کو دستیاب حفاظتی انتظامات کے بارے میں بے خبر تھی، اس نے یہ نہیں سوچا تھا کہ سائبر کرائم سیل میں آن لائن درخواست جمع کروائی جاسکتی ہے، کسی قریبی دوست کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اس نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) سے مدد لینے کا سوچا۔




نعیمہ کے مطابق “میں نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ ارسلان درانی سے رابطہ کیا اور اس سلسلے میں ان سے سرکاری تعاون کی درخواست کی، میں نے دفتری طوالت کو مد نظر رکھتے ہوئے آن لائن درخواست دینے سے گریز کیا، اور متعلقہ فیک اکاونٹس کے بارے میں کارروائی کی درخواست دی جس پر ایف آئی اے کا ردعمل انتہائی مثبت تھا انہوں نے فوری طور پر معاملے کی تحقیقات کا آغاز کیا اور جلدی کاروائی کرتے ہوئے فیک اکاونٹس کو رپورٹ کیا جس کے بعد میری مشکل کافی حد تک حل ہوگئی لیکن میں اب بھی پریشان ہوں ۔"




ایف آئی اے نے نعیمہ کو مشورہ دیا کہ اگلے روز ایف آئی اے کے دفتر آئیں اگر اس کے اہل خانہ کو اس تمام صورتحال کے بارے میں پتہ چل جاتا تو عین ممکن تھا کہ مشکلات بڑھ جاتی۔



بلوچستان میں ڈیجیٹل حقوق سے آگاہی کی کمی کے باعث کافی شہری ایسے ہیں جو آن لائن ہراسگی کے خلاف شکایت تک درج کرانے کے عمل سے لا علم ہیں۔



24 سالہ میروائس مشوانی بلوچستان میں سائبر کرائم کا شکار ہوئے۔ انہوں نے گزشتہ برس بلوچستان ٹی وی کے نام سے فیس بک پیج  قائم کیا، جہاں وہ سماجی و خواتین کے مسائل، ثقافت، تعلیم کی اہمیت جیسے موضوعات پوسٹ کرتے تھے جو کہ ہیک کر لیا گیا۔



میر کا کہنا ہے کہ " ان کے فیس بک کے صفحے کے دو ایڈمن تھے ایک میں اور دوسرا میرا قریبی دوست تھا، ایک روز ان کا فیس بک کا صفحہ اور نجی اکاونٹ دونوں ہیک کر لئے گئے۔ میر کو اس واقعے کا کافی دکھ ہو تاہم اس کے باوجود میر نے ایف آئی اے سے رجوع نہیں کیا۔"




نعیمہ زہری کے مطابق انہوں نے ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن اور بلوچستان یونیورسٹی کی جانب سے مشترکہ طور پر منعقدہ ڈیجیٹل سیکیورٹی کی مناسبت سے ایک ہفتے پر مشتمل ٹریننگ حاصل کی جس میں اس نے پیکا ایکٹ 2016 سمیت آن لائن پرائیویسی، ڈیجیٹل سیکیورٹی کو مظبوط کرنا اور کسی بھی ہراسگی کے خلاف ایف آئی اے کو درخواست دینا سیکھا یہ ٹریننگ نعیمہ کے لئے کافی مددگار ثابت ہوئی۔


میر بھی ڈیجیٹل سیکیورٹی ٹریننگ میں شریک رہے ان کا کہنا ہے کہ "اب میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے محفوظ استعمال کے بارے میں آگاہ ہوں اور کسی بھی قسم کے آن لائن ہراسگی یا پھر ہیکنگ ںسے خود کو بچا سکوں گا"۔


2016 میں بننے والا پیکا ایکٹ عوام  کی ڈیجیٹل سیکیورٹی پر نظر رکھتا ہے،'اس کے مطابق سوشل میڈیا یوزر کو درپیش مسائل اور ان مسائل کا سدباب کے لئے کوشاں رہنا ہے۔پیکا مسودے کے تحت بتائے گئے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی پر معالی و جسمانی سزا کا تعین کیا گیا ہے۔'


 مئی 2019 میں فیس بک نے ایک بیان جاری کیا جس میں یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ 'وہ  اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرے گا اور مقامی اور ثقافتی طور پر متعلقہ معلومات کے ساتھ متاثرہ سپورٹ ٹول کٹس بھی تیار کرے گا۔'


جس میں  ریوینج پورن ہیلپ لائن (یوکے) ، سائبر سول رائٹس انیشیٹو (یو ایس) ، ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن ( پاکستان) ، سیفرنٹ (برازیل) اور پروفیسر لی جی جیون (جنوبی کوریا) سے ہونگے۔



 بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 'بدلہ فحش ان بہت سے معاملات میں سے ایک ہے جس کے نتیجے میں دنیا کو عوامی شیئرنگ کا پلیٹ فارم پیش کرنے کا نتیجہ برآمد ہوتا ہے، فیس بک آج بہت سے محاذوں میں سوشل میڈیا کی ناکامیوں کا مالک بننے لگا ہے جس میں ڈیٹا پرائیویسی کی خلاف ورزیوں، غلط معلومات کا پھیلاو اور آن لائن ہراسگی جیسے واقعات شامل ہیں۔'



ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) ایک ڈیجیٹل رائٹس واچ ڈاگ ہے جو فیس بک کے ساتھ سوشل میڈیا صارفین کی آن لائن رازداری اور پاکستان میں ڈیجیٹل سیکیورٹی پر کام کرتا ہے۔ یہ ایک غیر معروف  تنظیم ہے جو 2012 سے شہریوں کی ڈیجیٹل حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ اس کی تشکیل کے بعد سے اس تنظیم  نے ایک آن لائن ہراسگی سے متاثرہ افراد کے لئے ہیلپ لائن قائم کی ہے جو ہر مہینے اوسطا 146 کالز وصول کرتی ہے۔ سال 2019 کو اس ہیلپ لائن کے زریعہ کل 2023 شکایات موصول ہوئیں۔



 ڈیجیٹل سیکیورٹی کے ماہر عدنان عامر ، ڈیجیٹل سیفٹی اور ڈیٹا کی آن لائن خلاف ورزی کے امور پر کام کرتے ہیں ان کے مطابق “سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو محفوظ بنانے کے لئے صارفین کو خود پلیٹ فارم کی فراہم کردہ تکنیکی مدد کے بارے میں جاننا چاہئے کہ وہ ہیکنگ سے خود کو بچانے کے لئے (ٹو سٹیپ ویریفیکیشںن) سمیت مضبوط پاس ورڈ لگائیں اور ساتھ ہی میں بیک اپ ای میل رکھیں، تاہم اسی سلسلے میں تربیتی ورکشاپس کی اشد ضرورت ہیں۔"



2002 کو اسلام آباد میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) سے متعلق جرائم کی تحقیقات کے لئے ایک خصوصی شعبہ تشکیل دیا۔ یہ ونگ عام طور پر سائبر کرائمز کے لئے نیشنل رسپانس سینٹر (NR3C) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ (این آر 3 سی) کے پاس ملک بھر میں پندرہ اسٹیشن ہیں جو ڈیجیٹل سیکیورٹی سے متعلق امور پر غور کرتے ہیں۔



 ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے سائبر سیل بلوچستان ارسلان درانی نے آن لائن ہراسگی کی شکایت درج کرنے پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا  "شکایت کے اندراج کے لئے تین طریقے ہیں۔ پہلا ایک آن لائن ڈیجیٹل فارم ہے جو سائبر کرائمز سیل (ایف آئی اے) کے ڈیجیٹل سائٹ پر کاؤنٹی میں اپنے تمام پندرہ اسٹیشنوں پر آن لائن دستیاب ہے جبکہ دوسرا شکایت کنندہ ایف آئی اے سے شکایت وصول کرنے والے کو تفصیلی ٹیلیفون کال کرسکتا ہے جبکہ تیسرا شکایت کنندہ اپنی شکایت درج کرنے کے لئے دفتر میں ذاتی طور پر بھی آ سکتا ہے۔




ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی دو سالہ رپورٹ کے مطابق پیکا ایکٹ پر اطلاق ہوا ہے اور ایف آئی اے سائبر کرائمز سیل کو بلوچستان میں کل 6،790 کیسز موصول ہوئے ہیں۔ جن میں سے بیشتر شخصی طور پر یا کال پر جمع کروائے گئے ہیں ان مقدمات میں سے 5،080 قانونی کارروائی کا نتیجہ نکلا جن میں سے صرف 290 ابھی باقی ہیں۔



ارسلان درانی کے مطابق " سائبر کرائم سیل کو مالی مشکلات در پیش ہیں اور لاجسٹک سپورٹ کی کمی کا سامنا ہے تاہم اس کے باوجود ہم  شکایات کا ازالہ کرتے ہیں  ہمیں زیادہ تر آن لائن ہراساں کرنے، ہتک عزت اور ہیکنگ کی شکایات موصول ہوتی ہیں۔"



انہوں نے مزید بتایا سوشل میڈیا پلیٹ فارم جیسے فیس بک اور ٹویٹر سے مزید آلات اور تکنیکی اور انتظامی مدد کی ضرورت ہے۔ ان کی پالیسیاں ہمارے لئے اعداد و شمار تک رسائی مشکل بناتی ہے۔



ایف آئی اے کی کاوشوں کے باوجود بلوچستان میں شہریوں کا  ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر عدم تحفظ باعث تشویش ہے اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو آن لائن حراسگی سے محفوظ رکھنے میں کردار ادا کرے۔