گذشتہ ہفتے کابل اور ننگرہار میں ہولناک حملوں کے نتیجے میں 40 سے زائد افراد لقمہ اجل بنے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔ مگر پاکستانی مرکزی دھارے میں کسی کو حیرت کا ذرا بھی جھٹکا نہیں لگا، حالانکہ اسپتال کے مٹرنٹی ہوم پر ہونے والا حملہ نہایت ہی انسانیت سوز واقعہ تھا۔ ماسوائے چند سرکاری مذمتی بیانات اور ایک آدھ خبری ٹکڑوں کے دور دور تک خاموشی ہی چھائی رہی۔
طالبان نے واقعات کی ذمہ داری قبولنے سے بظاہر انکار کر دیا ہے۔ یہ چہ مگوئیاں بھی سننے کو مل رہی ہیں کہ افغانستان میں ہونے والی کارروائیوں کے پیچھے داعش سمیت دیگراسلامی گروہ بھی سرگرم عمل ہیں۔ اصل سوال یہ نہیں کہ قتل عام کی منصوبہ بندی کون سی عسکریت پسند تنظیم کرتی ہے بلکہ یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں اسلام کے نام پر آخر کون ہے جو پرتشدد نظریات کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
یہ کہانی تو پرانی ہے لیکن اسے یہاں دہرانا ضروری ہے۔ پاکستان سمیت سارے خطے میں شدت پسند اسلام کی بنیاد اور پھیلاؤ کسی قسم کی بغاوت کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے ریاست کی سرپرستی کارفرما ہے۔ دہائیوں سے اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں اس عمل کو تزویراتی گہرائی یعنیStrategic Depth کی پالیسی کے نام سے پکارا جاتا رہا ہے، جسے 1980 کی دہائی میں امریکی، سعودی اور مغربی بلاک کی زمینی و سیاسی منصوبوں کی روشنی میں تخلیق دیا گیا تھا۔ اور پھر 9/11 کے واقعے کے بعد جب واشنگٹن نے اپنی توپوں کا رخ ’دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر اپنے سابقہ اتحادیوں کی طرف کیا تو اسٹیبلشمنٹ کے لئے تدبیریں الٹی پڑنا شروع ہو گئیں۔
کئی دہائیوں بعد اسٹیبلشمنٹ بھلے ہی سٹریٹجک ڈیپتھ کو پہلے کی طرح اپنا قطبی ستارہ سمجھتی ہو یا نہ سمجھتی ہو لیکن اس ملک میں آج بھی دسیوں لاکھ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اس تصور پر یقین رکھتے ہیں کہ افغاسنتان میں ’غیرملکی کافروں‘ سے لڑنے والے ’اچھے طالبان‘ وجود رکھتے ہیں۔ پاکستان کے اندر وقوع پذیر ہونے والی نظریاتی انجینئرنگ کی اس بات سے زیادہ دردناک نشانی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ ’سٹریٹجک ڈیپتھ‘ کی منطقوں کا اطلاق ہمارے اپنے ہی وطن کے لسانی گروہوں پر ہوتا ہے۔ مثلاً یہ شواہد مل رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے افغانستان کی سرحد سے ملحقہ قبائلی اضلاع میں عسکریت پسندوں کا پھر سے ابھار پیدا ہو رہا ہے۔ 9/11 کے بعد سے ملک کے اندر جو کچھ ہوا اس کے بعد کیا اب بھی ’اچھے طالبان‘ کی خام خیالی کو برقرار رکھنا ممکن ہے؟
قبائلی علاقے کے باشعور نوجوان جب سے چیخ و پکار کر رہے ہیں کہ اچھے اور برے طالبان کی تقسیم سنگین مذاق ہے۔ لیکن ریاستِ پاکستان نہ ان علاقوں اور نہ ہی تاریخی طور پر دیگر مظلوم اقوام کے اندر احساس محرومی اور اس کے ساتھ پیدا ہونے والی بیگانگی کو دور کرنے کے لئے اپنی ترجیحات بدلنے کے لئے تیار نظر آتی ہے۔ بلکہ سٹریٹجک ڈیپتھ کا نظریہ جب تک مکمل طور پر پاکستان کے مرکزی دھارے سے نکل نہیں جاتا تب تک حالات جوں کے توں ہی رہیں گے۔
میں دراصل یہاں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان اور اس کے شہروں اور ترقی یافتہ مرکزی علاقوں میں مقیم کئی عام شہری ’وسیع تر قومی مفاد‘ میں دور دراز علاقوں میں رہنے والوں کو غیر اہم سمجھتے ہوئے ان کی زمینوں کو محفوظ بنانے اور وسائل کو اپنے استعمال میں لانے کی سوچ کا خلل اب ختم کرے۔ جب برائے نام برابر کی حیثیت والے شہری یہ مطالبہ کرتے ہیں تو انہیں ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ گذشتہ دو برسوں کے دوران سابق فاٹا اضلاع میں جنگ مخالف پی ٹی ایم کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے، جس کا تازہ ثبوت حال ہی میں عارف وزیر کا قتل ہے۔ لیکن شائد قبائلی اضلاع کے پختونوں سے بھی زیادہ بیگانگی بلوچ قوم کے اندر پائی جاتی ہے۔
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ بلوچستان قدرتی وسائل کے حوالے سے پاکستان کا امیر ترین صوبہ ہے۔ ریاست یہاں سے سندک، ریکو ڈک، گوادر پورٹ، سوئی اور نہ جانے کیا کیا حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن سیاسی شعور رکھنے والے بلوچستان کے نوجوانوں کے سوالوں کا جواب دینا گوارا نہیں کرتی اور نہ ہی گشمدہ افراد کے سکینڈل کے بارے میں کوئی وضاحت پیش کرتی ہے۔ پاکستان میں برسراقتدار آنے والی ہر حکومت نے بلوچستان میں تاریخی ناانصافیوں کو تسلیم کیا ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کی سوچ میں رتی برابر بھی فرق نہیں آیا ہے۔
پھر گلگت بلستان کا علاقہ ہے کہ جہاں ریاست ’زمینی اصلاحات‘ کے لبادے میں قیمتی قدرتی وسائل کو اپنے قبضے میں لانا چاہتی ہے لیکن ان نوجوانوں کی بڑی اور بڑھتی آبادی کی آوازوں پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہے جو وسائل پر حق اور سیاسی خود ارادیت کا جائز مطالبہ کر رہی ہے۔ جن میں سے 7 سال سے قید بابا جان سرِ فہرست ہیں۔
جنوب مشرق میں واقع تھرپارکر ایک ایسا ہی سرحدی علاقہ ہے جو دہائیوں سے نظرانداز رہا اور وہاں آباد ہندوؤں کی ایک بڑی آبادی کو دیوار سے ہی لگائے رکھا گیا۔ مگر اب چونکہ کوئلے کی کانیں کھد چکی ہیں اس لئے تھر اچانک سے اہم بن گیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ جب وہاں سیاسی شعور رکھنے والے افراد ریاست پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں تو حیرت نہیں ہوتی۔
یہ ایک پرانی کہانی ہے اور اس کا انجام ہمیشہ ہی برا ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں سے اکثریتی قوم (بنگالی) نے 1971 میں علیحدگی اختیار کی اور سبب یہی تھا کہ اسٹیبشلمنٹ نہ مشرقی پاکستان کے وسائل وہاں کے لوگوں کے حوالے کرنے کے لئے تیار تھی، نہ اختیارات دینے کے لئے تیار تھی اور نہ ہی بنگالی تہذیب و زبان کو اہمیت دینے کے لئے۔
مجھ سے زیادہ افغانستان میں امریکی سامراج کے خلاف کوئی نہیں ہوگا۔ مگر ہماری اپنی اسٹیبلشمنٹ کی تیار کردہ سٹریٹجک ڈیپتھ کا نظریہ ہماری سرحدوں کے اندر اور باہر موجود ان ’دشمنوں‘ سے کسی صورت بھی بہتر نہیں ہے جن سے ہم نفرت کرنا پسند کرتے ہیں۔ کوئی بھی ریاست اور ’ترقی یافتہ‘ علاقوں میں موجود اس کے مراعات یافتہ طبقات اس وقت تک اخلاقی بلندی کے دعویدار نہیں بن سکتے جب تک اس کی اپنی ہی تمام اقوام کو ان کے جائز حقوق نہ دیے جائیں، خاص طور پر پاکستان جیسا ملک جو کے قانونی طور پر وفاق کہلاتا ہے۔ اور نہیں تو کم از کم بلوچوں، پشتونوں، سندھیوں، گلگت بلتستانیوں، سرائیکیوں، کشمیروں کو نو آبادیاتی طرز پر استحصال کا شکار بنانا بند کرنا ہوگا۔ پائیدار امن اور معنی خیز جمہوریت صرف پھر ہی ممکن ہے۔
مصنّف قائد اعظم یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعت عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما بھی ہیں۔