وزیراعظم پاکستان نے کچھ ہفتے پہلے ایک بین الاقوامی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ ان کی حکومت ریپ میں ملوث مجرمان کے لئے (کیمیکل کیسٹریشن) یعنی جنسی صلاحیت سے محرومی کا قانون عمل میں لارہی ہے جس کے بعد کچھ حلقوں نے ان کے فیصلے کو سراہا ہے جبکہ بعض سنجیدہ حلقوں نے وزیر اعظم کے بیان پر تنقید کی۔ بین الاقوامی میڈیا نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے اس فیصلے کو خوب اچھالا اور کئی بین الاقوامی جریدوں نے وزیر اعظم کے فیصلے پر تنقید کی۔ گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں زیادتی کے واقعات میں ملوث مجرمان کی سخت سزاؤں پر مشتمل سفارشات کی اصولی منظوری دی گئی۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بعض وفاقی وزراء نے زیادتی کے مجرمان کو پھانسی کی سزا قانون کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا اور رائے دی کہ ریپ کے مجرموں کو سرعام پھانسی کے تختے پر لٹکایا جانا چاہیے۔
وزیراعظم نے زیادتی کے مجرمان کےلیے کیسٹریشن (جنسی صلاحیت سے محروم کرنا) کا قانون لانے کی بھی اصولی منظوری دے دی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عوام کے تحفظ کے لیے واضح اور شفاف انداز میں قانون سازی ہوگی، ابتدائی طور پر کیسٹریشن کے قانون کی طرف جانا ہوگا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ قانون سازی میں کسی قسم کی تاخیر نہیں کریں گے، سخت سے سخت قانون کا اطلاق یقینی بنایا جائے گا اور متاثرہ خواتین یا بچے بلاخوف وخطر اپنی شکایات درج کراسکیں گے جب کہ متاثرہ خواتین وبچوں کی شناخت کے تحفظ کا بھی خاص خیال رکھا جائےگا۔
بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ساحل کے اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ اس سال کے پہلے چھ مہینوں میں دو ہزار سے زیادہ بچوں کو ریپ اور قتل کیا گیا ہے۔
قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ یہ سزا نہ صرف پاکستان کے آئین سے متصادم ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ سزا انٹرنیشنل کنونشن آن سول اینڈ پولیٹکل رائٹس (آئی سی سی پی) کے بھی خلاف ہے جس پر خود پاکستان کے بھی دستخط موجود ہیں اور کوئی بھی سزا دینے سے پہلے پاکستان بین الاقوامی سطح پر اپنے معاہدوں پر نظر ڈالے گا۔
پاکستان میں بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے ممتاز گوہر وزیر اعظم پاکستان اور وفاقی کابینہ کے اس فیصلے کو سوشل میڈیا پر چلتے ٹرینڈز سے جوڑتے ہیں۔ ممتاز گوہر نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ پاکستان میں ہر مسئلے کو جذباتیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ریپ کے مسئلے کو بھی ہم جذباتی طور پر دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم پاکستان میڈیا اور سوشل میڈیا سے بہت متاثر ہیں اور اگر آپ نے نوٹس کیا ہو تو گزشتہ کئی عرصے سے سوشل میڈیا پر )#Hangtherapist( جیسے ٹرینڈز چلے رہے ہیں اور یہی وہ دباؤ ہے جو وزیر اعظم کو ایسے قوانین کی طرف لیکر جارہا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ کیا اس عمل پر حکومت نے کوئی تحقیق کی ہے کہ کسی کو انتقام کی بنیاد پر عبرتناک سزا دینے سے وہ مستقبل میں ایسی جرائم سے دور رہے گا ؟ میری نظر میں ایسا ہرگز نہیں کیونکہ بین الاقوامی سطح پر تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ عبرتناک سزا دینے سے کسی بھی جرم کو روکا نہیں جاسکتا۔ ممتاز گوہر سمجھتے ہے کہ اگر کسی کو جنسی صلاحیت سے محروم کیا جائے تو ایک طرف وہ سماج کے دباؤ کا شکار ہوگا کیونکہ یہاں نامردی کا طعنہ کوئی برداشت نہیں کرسکتا اور وہ معاشرے میں رہنے کے قابل نہیں ہوگا تو دوسری طرف وہ مزید انتقام پر اُتر آئے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہاں سزائیں موجود ہیں مگر قانون شہادت کمزور ہے۔ دوسری طرف ملک میں فرانزک کی ایک ہی لیباٹری ہے جبکہ اکثر مجرمان اثر رسوخ کی وجہ سے سزائیں ملنے سے بچ جاتے ہیں۔
کیا وزیر اعظم حکومتی ساکھ کو بچانے کے لئے ایسے اقدامات کررہے ہیں؟
نیا دور میڈیا کو حکومت کی اتحادی جماعت کے ایک اہم سیاسی شخصیت نے نام نہ بتاتے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی آپ کو ناکامی کا سامنا ہو یا عوام کے دلو ں میں آپ کی نااہلی سامنے آرہی ہو تو آپ ایسے ہی فیصلے کریں گے چاہے آپ کو مذہب کا سہارا لینا پڑے یا پھر کچھ اور۔ انھوں نے مزید کہا کہ ضیاء نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے مذہب کا نعرہ لگایا اور اسلامی سزائیں لائے تاکہ رجعت پسند سماج میں اپنا مقام بناسکیں ، بھٹو نے شراب پر پابندی اور ایک اقلیت کو کافر قرار دیا کیونکہ وہ بھی رجعت پسند سماج میں اپنا مقام بنانا چاہتے تھے اور وزیر اعظم عمران خان کا فیصلہ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ بے وقوفی نہیں بلکہ ایک اعلیٰ درجے کی حماقت ہے جس کی میں نے وفاقی کابینہ میں بھی مذمت کی تھی اور اگے بھی کرتا رہونگا اور اس کے اثرات بہت خطرناک ہونگے۔ انھوں نے اس بات کی تائید کی کہ سوشل میڈیا پر دباؤ کی وجہ سے ہی عمران خان ایسے فیصلے کررہے ہیں تاکہ حکومت کی سوشل میڈیا پر تشہیر کی جاسکے کیونکہ زمینی حقائق اور حکومت کی کارکردگی تو سب کے سامنے ہے۔
کیا مجرمان کی پروفائیلنگ سے جرائم کم ہوسکتے ہیں؟
بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے ممتاز گوہر سمجھتے ہیں کہ مجرمان کی پروفائیلنگ جرائم میں کمی لانے کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ بین الاقوامی دنیا میں مختلف جرائم کی پروفائیلنگ ہوتی ہے اور مجرمان ہر وقت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظر میں ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف ہمارے ہاں المیہ یہی ہے کہ لندن اور اٹلی سے جنسی جرائم میں سزا پانے والے مجرمان پاکستان کی حکومت میں نوکری پر لگ جاتے ہیں۔ عمران خان کی خیبر پختونخوا حکومت کی مثال ہمارے سامنے ہیں جہاں سہیل ایاز نامی مجرم نے کئی سال تک نوکری کی۔
کیا ریپ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے؟
اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں فرائض سرانجام دینے والے معروف نفسیاتی ماہر ڈاکٹر عبدالوہاب یوسفزئی ریپ کے ملزمان کے لئے جنسی صلاحیت ختم کرنے کی سزا کی مخالفت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالوہاب یوسفزئی نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ریپ کے مجرمان کے لئے پہلے سے ایک موثر قانون موجود ہے اگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو مزید سزائیں بھی کارآمد نہیں۔ عبدالوہاب یوسفزئی کہتے ہیں کہ جنسی صلاحیت سے محرومی ایک مرحلہ وار عمل ہے جن کے لئے وسائل، میڈیکل مہارت اور سائنسی نظام درکار ہوتا ہے۔ کیا حکومت نے فیصلہ سازی سے پہلے کوئی تحقیق یا تیاری کی ہے کہ اس عمل کو کس طرح نافذ کرنا ہے؟ ایک سوال کے جواب پر انھوں نے کہا کہ میڈیا میں اور عام سماج میں یہی تاثر ہے کہ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے جس میں کوئی حقیقت نہیں کیونکہ اگر ہم قتل، ریپ اور دیگر جرائم کے مجرمان کو نفسیاتی بیماریوں سے جوڑینگے تو پھر ملک میں نفسیاتی صحت سے دوچار مریضوں پر اسکا بہت برا اثر ہوگا۔