دنیا بھر میں خواتین کو حقوق سے محرومی کا سامنا

دنیا کے صرف چھ ملکوں میں خواتین اور مردوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں، ورلڈ بنک کی نئی رپورٹ میں انکشاف

دنیا میں صرف چھ ملک ایسے ہیں جہاں مردوں اور عورتوں کو قانون کے تحت یکساں حقوق حاصل ہیں۔ یہ انکشاف ورلڈ بنک کی ایک حالیہ رپورٹ میں کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ دس برسوں کے دوران دنیا کے 131 ملکوں نے قوانین میں 274 اصلاحات کی ہیں جن کے باعث ان ملکوں میں صنفی توازن میں بہتری آئی ہے۔

لیکن تمام ملکوں میں ہی اصلاحات کا یہ عمل اس رفتار سے جاری نہیں ہے۔

ورلڈ بنک کی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں عورتوں کو مردوں کی نسبت تین چوتھائی قانونی حقوق حاصل ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں یہ صورتِ حال زیادہ تشویش ناک ہیں جہاں خواتین کو مردوں کی نسبت نصف سے بھی کم قانونی حقوق حاصل ہیں۔



ورلڈ بنک کی اس رپورٹ کے مطابق صرف ڈنمارک، فرانس، لٹویا، لکسمبرگ، بیلجیم اور سویڈن ہی وہ ملک ہیں جہاں مردوں اور خواتین کو یکساں حقوق حاصل ہیں اور یہ تمام ملک براعظم یورپ میں ہیں۔

ورلڈ بنک کے مطابق، ان چھ ملکوں میں سے فرانس میں بڑے پیمانے پر خواتین کی حالت میں بہتری آئی ہے جس کی وجہ گھریلو تشدد، جنسی ہراسگی اور والدین کی چھٹیوں سے متعلق کی جانے والی نئی قانون سازی ہے۔

باعثِ تشویش اَمر یہ ہے کہ ان چھ ملکوں میں بھی ’’می ٹو تحریک‘‘ کے اثرات مرتب ہوئے ہیں جس کے باعث مکمل صنفی مساوات کا حصول دنیا کے کسی بھی ملک میں آسان نہیں ہے۔

ورلڈ بنک یہ اعتراف کرتا ہے کہ ’’ صنفی توازن کے مقصد کے حصول کے لیے صرف قوانین میں تبدیلی ہی کافی نہیں ہے۔‘‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے:’’قوانین پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کے لیے سیاسی عزم کے علاوہ ثقافتی رویوں میں تبدیلی لانا نہایت اہم ہے۔‘‘