چند دن پہلے کی بات ہے جب کرونا سے متاثرہ مریضوں کے لئے ایکٹمرا انجکشن کی فراہمی کا بیڑا اٹھایا تو کرونا کی وبا سے مقابلے کی حکومتی تیاری کا پول کھلتا چلا گیا۔ پنجاب حکومت تو خیر ہر کام اپنے لیڈر کی طرح با امر مجبوری کر رہی ہے۔ اسی لئے چند دن پہلے تک ایکٹمرا انجکشن سیکرٹری ہیلتھ کی سفارش کے بغیر ملنا ناممکن تھا جب کہ اس انجکشن کو بنانے والی کمپنی نے حکومت سے بے حد تعاون کیا۔ آج بھی پاکستان میں اس انجکشن کی قیمت بھارت اور بنگلہ دیش سے کم ہے لیکن امریکہ سے اس انجکشن کی درآمد کی درخواست کا فیصلہ تب کیا گیا جب یہ انجکشن پانچ لاکھ میں بھی میسر نہ رہا۔ اب کہیں جا کر یہ حکم جاری ہوا کہ یہ انجکشن براہ راست اسپتالوں کو فراہم کیے جائیں گے۔
اسی ایکٹمرا کے لئے کسی مہربان نے این ڈی ایم اے سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا۔ دو تین مریضوں سے زیادہ کا مسئلہ تو حل نہ ہو سکا کیونکہ وہاں بھی سرخ فیتہ اور سب سے پہلے وی آئی پی والی ذہنیت کسی حد تک موجود ہے۔ لیکن اس تمام محنت کے دوران کچھ ایسے ہوشربا انکشافات ہوئے جس سے یہ پتہ چلا کہ ہمارے حکمران اس وبا سے عوام کو بچانے کے لئے کس حد تک سنجیدہ ہیں یا کتنی مجرمانہ غفلت دکھائی گئی ہے۔
سو سے زائد لوگ روزانہ اس وبا سے اور دوا نہ ملنے کی وجہ سے مر رہے ہیں لیکن حکومتی ایوانوں میں ہر کوئی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہے اور جس شخص یا ادارے کو اس بیماری کی ہلاکت خیزی کا علم ہے اور بروقت اقدامات کرنا چاہتا ہے اسے ہر طرح سے روکنے کی کوشش جاری رہتی ہے۔ حکومت کی طرف سے یہ کام اسد عمر، ڈاکٹر ظفر مرزا اور ڈاکٹر فیصل سلطان بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ ظاہر ہے یہ سب وزیر اعظم کی ہدایات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
ذرا غور کیجئے کہ این ڈی ایم اے نے کتنے ماہ قبل پولیو ویکسین دینے والے عملے کو کرونا وبا کے دوران استعمال کرنے کی تجویز دی تاکہ مشتبہ مریضوں تک پہنچا جا سکے اور ان کا علاج بروقت ممکن ہو۔ یہ کارکنان بےحد تربیت یافتہ ہیں اور ان کی تعداد بھی ایک لاکھ سے زائد ہے۔ پولیو ویکسین کرنے والے یہ کارکنان ہر محلہ، گلی حتیٰ کہ گھر اور ان کے مکینوں کی تعداد سے واقف ہیں۔ لہٰذا وبا کو پھیلنے سے پہلے ہی قابو کرنے کے لئے ان لوگوں کو لاک ڈاؤن کے دوران قانون مافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے استعمال کرنے کی تجویز دی گئی۔ اس تجویز پر ڈیڑھ ماہ ضائع کر دیا گیا اور جب فیصلہ ہوا تو ٹائیگر فورس جیسی کاغذی تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
16 اپریل کو این ڈی ایم اے نے اجلاس میں آنے والے خطرات سے آگاہ کیا اور 2000 بی پائپ اور 1000 سی پائپ منگوانے کی تجویز پیش کی لیکن اس تجویز کو بھی یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ ہمیں اس حد تک پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے یہاں اس وبا کے اس حد تک جانے کا امکان نہیں ہے۔ ڈاکٹر فیصل سلطان نے تو ان بی اور سی پائپ وینٹیلیٹرز کو وینٹیلیٹرز ہی ماننے سے انکار کر دیا حالانکہ اس وقت تک تحقیقات میں یہ بات سامنے آ چکی تھی کہ روایتی وینٹیلیٹرز اس بیماری میں کارگر ثابت نہیں ہو پائے۔
قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے۔ اتنا عرصہ ضائع کرنے کے بعد وزیر اعظم نے اپنے حالیہ دورہ لاہور میں انہی وینٹیلیٹرز کے خریدنے کا اعلان کر کے کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے اعلان سے کچھ دن پہلے ہی این ڈی ایم اے ان وینٹیلیٹرز اور 1000 خصوصی بیڈز کی خریداری کے ٹینڈر کر چکا تھا۔ اسی طرح ڈریپ نے کتنے ماہ ایکٹمرا بنانے والی کمپنی (روش) کی امریکہ سے اس دوا کی درآمد کی اجازت روکے رکھی اور اس عرصے میں کتنے لوگ دوا کی عدم دستیابی کی وجہ سے اللہ کو پیارے ہو گئے۔
ورلڈ بنک سے آنے والے 242 ملین ڈالر نے بھی ایک اور قضیہ کھڑا کر دیا ہے۔ حکومتی وزرا، خاص طور پر ڈاکٹر ظفر مرزا، یہ پیسہ یونیسف کے ذریعے خرچ کرنا چاہتے ہیں جس کے ایک حفاظتی لباس کی قیمت 64 ڈالر ہے۔ اس کے علاوہ یونیسف اس رقم کا 24 فیصد حصہ اپنے اخراجات کی مد میں بھی کاٹ لے گا۔ این ڈی ایم اے نے حکومت کے اس اقدام پر اعتراض کیا اور وہی لباس صرف 1500 روپے میں خرید کر دینے کی پیشکش کر دی تو جیسے طوفان آ گیا۔ ایسا اختلاف ڈاکٹر ظفر مرزا اور اسد عمر کی طبیعت پر بہت ناگوار گزرا ہے۔
اس پیشکش کے جواب میں تزئین اختر نامی شخص کا اردو اور انگریزی میں چیئرمین این ڈی ایم اے کے خلاف مضمون سامنے آتا ہے۔ پہلے یہ مضمون واٹس ایپ گروپوں میں گردش کرتا رہا لیکن اچانک یہ مضمون ورلڈ بنک کے دفتر جا پہنچا۔ وہاں سے یہ مضمون ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے دفتر پہنچا اور پھر ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے پاکستان میں انچارج نے این ڈی ایم اے کی تحقیقات شروع کر دیں۔ ذرائع کے مطابق این ڈی ایم اے نے چک شہزاد اسلام آباد میں چین کے تعاون سے بننے والے 255 بیڈز کے ورلڈ کلاس اسپتال اور کراچی میں بننے والے اسپتال کے لئے جس طرح کی مشکلات کا سامنا کیا وہ ناقابل بیان ہے۔
یہ سب سازشیں ابھی چل رہی تھیں تو این ڈی ایم اے کو یہ حکم جاری ہو گیا کہ وہ کرونا وائرس کے خلاف استعمال ہونے والے آلات کی خریداری کا بجٹ 50 فیصد تک کم کر دیں۔ ایسی تمام رکاوٹوں اور احکامات کے پیچھے ہمیشہ اسد عمر ہی نظر آتے ہیں۔ اس تمام تر دباؤ کے باوجود چیئرمین این ڈی ایم اے نے آڈیٹر جنرل پاکستان کو خط کے ذریعے آگاہ کیا کہ 8 جون کے بعد این ڈی ایم اے کسی بھی وقت اپنا آڈٹ کروانے کے لئے تیار ہے جب کہ وہ اندرونی آڈٹ پہلے ہی کروا چکے تھے۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے اپنے خط کے ذریعے جواب دیا کہ وہ 15 جولائی کے بعد آڈٹ کر سکتے ہیں۔
اسد عمر کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بیک وقت وزیراعظم کا اعتماد بھی چاہتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے آپ کو متبادل کے طور پر پیش کرنے کی بھی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ اسی لئے وہ این سی او سی جیسی ماورائے آئین کمیٹی کے ذریعے ایسی حرکتیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ صرف این ڈی ایم اے ہی وہ آئینی اتھارٹی ہے جو وبا اور آفات میں کام کرنے کی مجاذ ہے لیکن اس کے اوپر این سی او سی کو مسلط کر دیا گیا ہے۔ انہی رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لئے چیئرمین این ڈی ایم اے نے وزیر اعظم سے ملاقات کا وقت مانگا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں ان کا مضمون صرف یہی تھا کہ حکومت نے لاک ڈاؤن کھولنے کا اتنا بڑا فیصلہ کیا ہے تو وبا کے پھیلنے کی صورت میں ہماری تیاری کیا ہے اور یہ کہ جو ادارہ کام کر رہا ہے اس کے لئے یہ تمام رکاوٹیں کیوں پیدا کی جا رہی ہیں اور یہ کہ این ڈی ایم اے وزارتوں کے لئے پروکیورمنٹ ایجنسی نہیں بلکہ ایک آئینی اتھارٹی ہے۔
ظاہر ہے وزیر اعظم نے ان معاملات کو حل کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہوگی لیکن کیا یہ سب ان کی مرضی کے خلاف ہوتا رہا ہے یا ان کے علم میں ہی نہیں تھا؟ ہر دو صورتوں میں معاملات بہت سنگین غفلت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ کیا یہ معمولی بات ہے کہ ایک ادارے کے سربراہ کے خلاف لکھا جانے والا ڈمی کالم ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ پہنچ جائے؟ کیا حکومت کو اس بات کی پروا تک نہیں کہ اگر عوام کو پتہ چل جائے کہ اس بحرانی کیفیت میں بھی کچھ کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ ہر کام کرنے والے شخص اور ادارے کے درپے ہے اور آئے دن سازشوں میں مصروف ہیں تو کیا ہوگا؟ اب جب لاشیں گرنے لگی ہیں تو پچھلے ہفتے این سی او سی کے اجلاس میں اس بحرانی کیفیت کے ذمہ داران کسی سے آنکھ نہیں ملا پا رہے تھے۔
وزیر اعظم سمیت ان تمام ذمہ داران کے اس وبا کے بارے میں مضحکہ خیز بیانات اور اقدامات نے ملک میں بیماری کو اس سطح تک پہنچا دیا ہے۔ کیا وزیراعظم اور ان کے رفقا ایسی تمام حرکتوں کے ذریعے کسی اور کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر خدانخواستہ 15 سے 20 ہزار لوگ اس وبا کے ہاتھوں مارے جائیں تو عوام اپنے قتل کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں گے؟
اس نظام کے ذمہ داران نوٹس لیں، کہیں ان کے ہی خلاف تو سازش نہیں ہو رہی؟ احمقانہ حرکتیں اور روز مرنے والی عوام کی بے بسی تو یہی بتاتی ہے کہ کوئی گہری سازش ہے۔ یہ صرف غفلت نہیں ہو سکتی۔ ورنہ کیا یہ ممکن ہے کہ اس آفت کے دور میں ملک کا وزیر اعظم سندھ کے دورے پر جائے تو وزیراعلیٰ سندھ سے نہ ملے، سندھ کے مسائل نہ سنے، بلکہ چند دعوتیں کھا کر واپس لوٹ جائے؟ ملک کے 20 شہروں میں لاک ڈاؤن کا اعلان کرے اور عملاً کہیں بھی لاک ڈاؤن نہ ہو؟ پنجاب کے مختلف اسپتالوں میں ایکٹمرا انجکشن کی فراہمی کا نظام وضع ہو لیکن جنوبی پنجاب سے ایک بھی اسپتال اس فہرست میں شامل نہ ہو؟
اس تمام تر تحقیق کا نہ چاہنے کے باوجود تلخ نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اس تمام تر تباہی اور نااہلی کا ذمہ دار وزیر اعظم کے علاوہ کوئی اور نہیں۔