وبا کے حالات میں گری بند سکرینوں سے پردہ کب اٹھے گا

وبا کے حالات میں گری بند سکرینوں سے پردہ کب اٹھے گا
کرونا وائرس کے بعد یہ دوسری عید الفطر ہے جب ہمارے سنیما گھروں میں کوئی بھی فلم نمائش کے لیے پیش نہیں کی گئی جبکہ پچھلے ایک سال سے سنیما گھروں کو تالے لگے ہوئے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وبا نے پوری دنیا کا نظام درہم برہم کیا ہے اور ساری دنیا کی سنیما انڈسٹری کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔

اگر وبا کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں ایران  بھارت امریکہ اور یورپ کے مقابلے میں کم جانی نقصان ہوا ،بھارت میں تو اب بھی کرونا وائرس کی دوسری لہر جاری ہے ،اس وبا کا مقابلہ کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ تھا وہ تھا لاک ڈاؤن یا کرفیو ہجوم جمع کرنے سے روکنا اب خالی میدانوں میں کرکٹ فٹ بال یا دوسرے کھیل تو منعقد ہو سکتے ہیں کہ لوگ ٹی وی پر گھر بیٹھے میچوں کو دیکھ سکیں ۔چونکہ میدان میں جانے کی پابندی ہے اس لئے ٹی وی پر ناظرین کی تعداد دوگنی ہو گی اس لئے ٹی وی رائٹیس کا معاوضہ بھی بڑھ گیا ،مگر سنیما گھروں میں ایسا نہیں ہو سکا۔



خالی سینما گھروں میں فلم ریلیز نہیں کی جا سکتی ،اس دروان دنیا بھر میں جب وبا کا زور ٹوٹا  توبھارت اور ہالی ووڈ کی فلمیں ریلیز ہوئیں دنیا میں فلم ریلیز کرنے کا ایک نیا ذریعہ ایپ ٹی وی پلیٹ فارم بھی مقبول ہوا، ایپ کو ڈوان لوڈ کریں ماہانہ ادائیگی کریں اپنے موبائل فون پر یا کمپیوٹر اور ایل سی ڈی پر فلمیں دیکھیں ۔

سوال یہ ہے کہ وبا کے باوجود دنیا بھر میں فلم سازی بھی ہوتی رہی مختلف پلیٹ فارم پر فلمیں بھی ریلیز ہوتی رہیں مگر وطن عزیز میں کیوں خاموشی رہی؟ لاک ڈاؤن پورا سال نہیں رہا ہجوم جمع ہوئے سیاسی جلسوں میں عوام شریک ہوئے، کرکٹ کے میدان تماشائیوں کے ساتھ آباد ہوئے، شادی ہالوں میں بھرپور تقریبات ہوتی رہیں، سب کچھ ہوا تھیٹر ہال بھی کھلے ڈرامے بھی چلے ٹی وی ڈرامے اور دیگر پروگراموں کی عکسبندی بھی ہوتی رہی مگر سینما گھروں کو تالے لگے رہے۔  پورے ایک سال سے ایک بھی فلم ریلیز نہیں ہوئی ،اس وقت کی ٹاپ فلمیں اور ٹی وی ڈراموں کی تکون سپر اسٹار ہمایوں سعید ڈائریکٹر ندیم بیگ اور رائٹر خلیل الرحمٰن قمر بھی خاموش رہے ،انکی آنے والی فلم ’میں لندن نہیں جاؤں گا‘ اور ڈرامہ سریل ’میں منٹو نہیں ہوں‘ کے بارے میں بھی کچھ نہیں پتہ کہ کب عکسبندی مکمل ہو گی اور یہ کب ریلیز ہوں گی؟

کیا وجہ ہے کہ دنیا بھر میں وبا کے باوجود ثقافتی سرگرمیاں جاری رہیں مگر ہم خاموش ہیں اورہماری سلور سکرین کے پردے گرے ہوئے ہیں۔ ہم فلم جیسی تفریح سے محروم ہیں اور وبا کے باعث اڑوس پڑوس سے بہت کم جانی نقصان کے باوجود اپنی سلور سکرین کا پردہ نہیں اٹھا سکے۔

اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری سنیما سکرین وبا سے پہلے ہی بحران کا اور وبا کا شکار تھی۔ ہمارے روایتی فلمی مرکز لاھور کے نگار خانے ویران تھے، کراچی کے چند پڑھے لکھے جنونی نوجوانوں نے وہاں اپنی مدر آپ کے تحت فلم سازی شروع کی تھی۔ کراچی فلم سازی اور ڈرامہ انڈسٹری کے حوالے سے ایک آئیڈیل شہر ہے وہاں جو کچھ ہورہا ہے اپنی مدد آپ کے تحت ہو رہا ہے۔ اس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا کوئی کردار نہیں البتہ لاھور کے نگار خانے برباد کرنے میں اس شہر کے جاہل فلمسازوں کا اپنا ہاتھ ہے جن کی سوچ بدمعاش کا ڈیرہ تھانے کا سیٹ اور طوائف کے کوٹھے سے آگے بڑھ نہیں سکی۔



یاد رکھیں دنیا بھر میں جدید ٹیکنالوجی کے باعث جو فلم سازی ہو رہی ہے اس میں حکومتی سرپرستی حاصل ہوتی ہے کہیں بھی فلم سازی حکومت کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے اگر کراچی کے نگار خانوں میں فلم سازی کو جاری رکھنا ہے ، لاہور کے ویران نگار خانے آباد کرنے ہیں اور ہماری سلور سکرین کا گرا ہوا پردہ اٹھانا ہے تو حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں جس میں کراچی لاہور اور پشاور شامل ان کو تعاون کرنا ہوگا ۔ پچھلے 73 سال گواہ ہیں کہ ہمارے معاشرے کے ارباب حکومت کا رویہ فلم والوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا رہا ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔