Get Alerts

یقین دہانی

یقین دہانی
موجودہ سیاسی صورت حال پر کافی دنوں سے غورکر رہا ہوں۔ کافی سوالات کا انبار ذہن میں جمع ہوتا رہا لیکن جوابات نہیں مل رہے تھے، کافی سوچ بچار کی۔ غور فکر کے بعد ایک لفظ میں مجھے تمام سوالوں کے جوابات پنہاں نظر آئے اور وہ لفظ ہے "یقین دہانی" ۔

جی ہاں! بظاہر بہت سادہ سا نظر آنے والا یہ لفظ اپنے اندر بہت گہرائی رکھتا ہے، آئیے اس لفظ کو ایک مثال کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچپن میں ایک بار میرے والد صاحب میرے چھوٹے بھائی کے لیے ایک کھلونا گاڑی خرید کر لائے تو وہ گاڑی مجھے بہت پسند آئی اور میں نے بھی وہ گاڑی لینے کی ضد شروع کر دی اور رونے لگا تو میرے والد صاحب نے مجھ سے کہا کہ بیٹا رونا بند کرو میں کل تمھارے لیے بھی ایسی ہی گاڑی لے آؤنگا لیکن میں پھر بھی روتا رہا۔

کافی دیر انہوں نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی لیکن میں روتا رہا پھر وہ مجھے دوسرے کمرے میں لیکر گئے اور مجھے جیب سے پیسے نکال کر دیئے اور کہا کہ تم صبح میرے ساتھ دکان پر جانا اور اپنی پسند سے جو گاڑی چاہو لے لینا ان پیسوں میں باآسانی اس سے بہتر گاڑی تمہیں مل جائے گی، پیسے ہاتھ میں آتے ہی مجھے یقین ہو گیا کہ کل مجھے گاڑی مل جائے گی تو میں نے رونا بند کر دیا اور کچھ دیر بعد جب میرے چھوٹے بھائی نے مجھے مطمئن پایا تو وہ حیرت زدہ ہو گیا اور بار بار میرے سامنے آ کر اپنی گاڑی سے کھیلنے لگا لیکن جب میں پھر بھی مطمئن نظر آیا تو اس کا ضطراب بڑھتا رہا وہ بلکل سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ آخر میرے اس قدر اطمینان کی وجہ کیا ہے؟ وہ حیران تھا میں احتجاج کا حق اور طاقت رکھنے کے باوجود یکدم خاموش کیوں ہو گیا اور گاڑی کی ضد کیوں چھوڑ دی اس کا اضطراب بجا تھا کیونکہ وہ پسِ پردہ مجھے اس کی گاڑی سے بہتر گاڑی لے کر دینے کی والد صاحب کی یقین دہانی سے بے خبر تھا۔

میری نظر میں یہی صورت حال اس وقت قوم کی بھی ہے قوم حیرت زدہ ہے اور سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر سیاسی حالات میں یہ جمود کیوں ہے؟ جن طبقات کو سراپا احتجاج ہونا چاہیے وہ اس قدر مطمئن اور سکوت کا شکار کیوں ہیں؟ میری نظر میں قوم اس پس پردہ یقین دہانیوں سے نا آشنا ہوتی ہے جو مختلف طبقات کو طاقتور حلقوں کی جانب سے کروائی جاتی ہیں جس کے بعد ان کا سافٹ ویئر تبدیل ہو جاتا ہے، جھگڑا صرف تب ہوتا ہے جب ایک طبقے کو کروائی گئی یقین دہانی کو پورا کرتے ہوئے کسی دوسرے طبقے کو کروائی گئی یقین دہانی کو پورا کرنا ممکن نہ رہے۔

میری نظر میں اس وقت ملکی اور بین الاقوامی سیاست کے وہ پہلو جن کو سمجھنا مشکل لگ رہا ہے ان کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی یقین دہانی ہے، اب تو میرا یہ ماننا ہے کہ جب بھی آپ کو کوئی معاملہ یا کسی کا طرز عمل سمجھ نہ آرہا ہو تو آپ سمجھ لیں کے اس کی وجہ کوئی نہ کوئی یقین دہانی ہے، یہ طے کرنے کے بعد جب آپ تھوڑا غور کریں گے تو آپ کو یہ بھی سمجھ آجائے گی کہ یقین دہانی کروانے والا کون ہوسکتا ہے اور کیا یقین دہانی ممکنہ طور پر کروائی گئی ہو گی جس کے بعد کسی شخص یا طبقے کا سافٹ ویئر ہی تبدیل ہو جاتا ہے وہ مشرق کے بجائے مغرب کی طرف چلنے لگتا ہے جبکہ اس کی مطلوبہ چیز مشرق کی جانب ہوتی ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ غیر مرئی طاقتوں کی مدد سے مشرق میں پڑی چیز مغرب کی جانب جاتے ہوئے شخص کی جھولی میں آ گرتی ہے اور یقین دہانی درست ثابت ہوجاتی ہے جس کی دیکھا دیکھی یقین دہانی کروانے والوں پر سب کا ایمان اور مضبوط ہوجاتا ہے۔

 میری نظر میں پاکستان کی جمہوری قوتوں کے گرد جو گھیرا تنگ کیا گیا ہے وہ عالمی قوتوں کی یقین دہانی کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر غور فرمائیں تو بھارت کا دیدہ دلیری سے کشمیر ہڑپ کر لینا، افغانستان میں امریکہ کا ساتھ دینے اور وہاں سرمایہ کاری کرنے کے انعام کے طور پر کرائی گئی یقین دہانی کے بغیر ممکن نہیں۔

ان کشیدہ حالات میں کرتار پور راہداری کھولنا بظاہر خیرسگالی پیغام لگتا ہے لیکن یہ خیر سگالی پیغام سے زیادہ اسٹریٹیجک اقدام لگتا ہے جس کا بھارت نے ٹھیک ٹھاک برا منایا ہے اور اس کا اظہار سپریم کورٹ کے بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کے فیصلے سے کیا گیا ہے لیکن بظاہر بھارتی قیادت کرتار پور کے کھلنے سے مطمئن نظر آتی ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ 

حالات کی سنگینی کے باوجود کرتار پور اور بابری مسجد کے فیصلے متعلقہ مقتدرہ کی یقین دہانیوں کے بغیر ممکن نہیں۔ الیکشن میں بد ترین دھاندلی ہونے کے باوجود ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا مولانا کے دھرنے سے فاصلہ بنائے رکھنا اور ملک میں کوئی بڑی اور جاندار تحریک نہ شروع کرنا کسی یقین دہانی کے بغیر ممکن نہیں۔

میڈیا پر بد ترین پابندیوں اور ملازمین کو فارغ کیے جانے کے باوجود کسی بڑی تحریک کا جنم نہ لینا بھی یقین دہانیوں کے بغیر ممکن نہیں۔ تاجروں کو محدود مدت تک ریلیف ملنا اور ان کا ہڑتال ختم کر دینا بھی یقین دہانیوں کے بغیر ممکن نہیں، مولانا کا دھرنا لپیٹ کر واپس جانا بھی کسی یقین دہانی کے بغیر ممکن نہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میرے والد نے مجھے میرے چھوٹے بھائی سے بہتر گاڑی لیکر دینے کی یقین دہانی کروا کر مجھے مطمئن کیا تھا ایسے ہی ان مختلف طبقات کو کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی سطح پر یقین دہانیاں کروا رہا ہے اور یہ ساری یقین دہانیاں آنے والے وقت میں واضح ہوتی جائیں گی۔

مختلف طبقات کے طرز عمل کو دیکھ کر لگتا یوں ہے کہ آنے والے وقت میں جلد ہی کوئی تبدیلی آنے والی ہے، جھگڑا صرف تب ہو گا جب کسی ایک کی یقین دہانی کو پورا کرتے ہوئے کسی دوسرے کو کروائی گئی یقین دہانی کو پورا نہیں کیا جائے گا۔

مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔