سترہ نومبر کا بدھ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کے سیاہ ترین دنوں میں سے ایک کے طور پر یاد رکھا جائے گا ۔ اس دن تحریک انصاف کی حکومت نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے درجنوں بل منظور کرا ڈالے۔ پارلیمانی روایت اور قانونی ضرورت کے تحت ان پر بحث کا تو ذکر ہی کیا، حزب اختلاف کو زیادہ تر بلوں کا متن پڑھنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ ان میں سے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو مسلط کرنے کا انتہائی متنازعہ بل بھی شامل تھا (جس نے پہلے بہت سی درست وجوہات کی بناپر اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا، خاص طور پر اس لیے کہ انتخابات میں دھاندلی کے لیے ان مشینوں کو استعمال کیا جا سکتا ہے) ۔ ایک بل جس میں 90 لاکھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے پاکستان کے انتخابات میں ووٹ دینے کا حق دیا گیا ہے۔ اس اسکیم سے انتخابی نتائج میں دھاندلی اور ردوبدل، دونوں کا خطرہ موجود ہے۔ریپ کرنے والوں کو جنسی طور پر غیر فعال بنانے کا بل۔ جدید تاریخ میں ایسی سزا کی مثال نہیں ملتی، وغیرہ۔ اس پیش رفت سے کئی اہم نکات سامنے آتے ہیں۔
سب سے پہلے، حکومت کی طرف سے مشترکہ اجلاس کو اس وقت ملتوی کر دیا گیا جب اس کے اتحادی شراکت داروں نے حکمران جماعت سے ناراضی کا اظہار کیاتھا۔ اس سے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ وہ اجلاس سے غیر حاضر ہوکر حکومت کو قانون سازی کے لیے درکار تعداد سے محروم کر سکتے ہیں۔ اس پر اسٹبلشمنٹ میدان میں اترآئی۔ اس نے مشترکہ اجلاس میں شرکت کرنے سے گریز اور حکومت کی مخالفت کرنے والوں کو جھکنے پر مجبور کردیا۔ ایک ایسی حکومت جو ایوان کا اعتماد کھونے، چنانچہ حق حکمرانی سے محروم ہونے کے دھانے پر تھی،کو غیر فطری سہارا دے کر کھڑا کردیا گیا۔ اس نے تین سال پہلے کی یاد تازہ کردی جب اسی اسٹبلشمنٹ نے آرٹی ایس میں گربڑ کرتے ہوئے انتخابی نتائج تبدیل کردیے اور تحریک انصاف کو اقتدار سنبھالنے کا موقع دیا تھا۔
دوسرا، قانون اور آئین کو روند ڈالا گیا۔ قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے اپوزیشن کو بولنے کی اجازت دینے یا ایوان کو تقسیم کرنے اور ووٹوں کی گنتی کرنے سے انکار کردیا۔ ایوان کے غیرجانبدار نگران کے بجائے پی ٹی آئی کے متعصب حامی کا کردار ادا کرتے ہوئے فیصلہ سنا دیا کہ ”ہاں“ کی آواز ”ناں“ سے بلند ہے۔ یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اومنی بس بل پیکج (ایک مسودہ جس میں مختلف قسم کے قوانین شامل کردیے جاتے ہیں) کی منظوری کے لیے ایوان میں موجود افراد کی سادہ اکثریت درکار ہے۔ اپوزیشن کا اصرار تھا کہ دونوں ایوانوں میں منتخب ہونے والوں کی اکثریت ضروری ہے۔ سپیکر نے آئین کی ایک شق پر زور دیا جس میں بتایا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں سے کسی میں بھی پیش ہونے والے بل کو دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے وہاں موجود افراد کی سادہ اکثریت کے ذریعے منظور کیا جاسکتا ہے۔
اہے اسے کسی ایک ایوان میں منظور کرانا ممکن نہ ہو۔ مذکورہ شق کی تشریح اس اہم حقیقت کو نظر انداز کرتی ہے کہ مشترکہ اجلاس صرف کسی بل کو مسترد کرنے یا ترمیم کرنے کے کسی بھی ایوان کے فیصلے کو ختم کرنے کے لیے بلایا جا سکتا ہے۔یہ کسی ایسے ایوان کو نظرانداز کرنے کے لیے دستیاب نہیں جس میں بل پیش نہیں کیا گیا ہو، چہ جائیکہ مسترد کردیا گیا ہو۔
دنیا بھر میں دوایوان رکھنے والے پارلیمانی نظام میں، ایوان بالا یا سینیٹ جو بالواسطہ طور پر وفاقی اکائیوں کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا جاتا ہے، کا مقصد ایوانِ زیریں یا قومی اسمبلی جو براہِ راست منتخب ہوتا ہے، کو چیک کرنا اور توازن قائم کرنا ہوتا ہے۔ اس کا مقصد قومی اسمبلی کو کمزور کرنا نہیں ہوتا۔ سینیٹ کو قومی اسمبلی سے آنے والے بل کو مسترد کرنے کا حق رکھتا ہے لیکن قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کو سینیٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے مشترکہ اجلاس بلانے کا حق حاصل ہے۔ لیکن موجودہ معاملے میں سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے والی حزب اختلاف نے بلیک بدھ کے روز مسلط کیے گئے زیادہ تر بلوں کو نہ دیکھا، نہ پڑھا اور نہ ہی ان پر بحث کی۔ یہاں تک کہ ای وی ایم بل بھی سینیٹ میں بحث کے لیے زیر التوا تھا اور اس نے اسے ابھی مسترد نہیں کیا تھا۔ اس طرح، اپوزیشن ممکنہ طور پر اس مخصوص آئینی شق کے لاگو ہونے کے حوالے سے سپیکر کے فیصلے کو عدالتوں میں چیلنج کرے گی کیوں کہ سینیٹ میں یہ بل بھی پیش نہیں کیے گئے تھے۔
تیسرا، اس واقعہ نے ان قیاس آرائیوں کو پھر سے جنم دیا ہے کہ پی ٹی آئی اوراسٹبلشمنٹ کے درمیان ناپاک اشتراک کی سند رکھنے والا ایک پیج کا بیانیہ نہ صرف زندہ، بلکہ پوری توانائی سے فعال بھی ہے۔ اس پر حزب اختلاف کو مایوسی ہوئی ہوگی۔اہم مسائل پر فریقین کے درمیان تناؤ پر بہت سی امیدیں باندھ لی گئی تھیں۔
درحقیقت حزب اختلاف نے اسٹبلشمنٹ سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی توپوں کا رخ عمران خان کی طرف کرلیا تھا۔ ان کے سیاسی نقصان کی اصل وجہ تو اسٹبلشمنٹ ہی تھی لیکن انہیں شاید اب سیاسی طور پر غیر جانب دا ر رہنے،اور عمران خان کو نظر انداز کرتے ہوئے دیگر آپشنز پر غور کرنے یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ حزب اختلاف کی اس پالیسی کی وکالت بلاول بھٹو اور شہباز شریف کررہے تھے۔ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی رائے اس کے برعکس تھی۔ اب اپوزیشن کو مل بیٹھ کر یہ طے کرنا ہو گا کہ آیا یہ واقعہ مختلف وجوہات کی بناپر عمران خان کے لیے اسٹبلشمنٹ کی عارضی دست گیری ہے یا پھر اسٹبلشمنٹ نے ان کے ساتھ ایک بار پھر دھوکہ کیا ہے اور اس پر آئندہ بھروسا نہیں کیا جا سکتا؟
تجزیہ کاروں کا اتفاق رائے ہے کہ اسٹبلشمنٹ اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ موجودہ جھٹکا ان کو دو وجوہات کی بنا پر پٹری سے نہیں اتارے گا: نمبر ایک، اسٹبلشمنٹ اس اٹل نتیجے پر پہنچ چکی کہ عمران خان اس کے کندھوں پر ایک ایسی ذمہ داری ہے جس کی وجہ سے نہ صرف بطور ادارہ اس کی ساکھ کو زک پہنچ رہی ہے بلکہ یہ قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہے۔ اس لیے وہ عمران خان کے علاوہ آپشنز کی تلاش جاری رکھے گی۔ نمبر دو، اپوزیشن اس بات پر متفق ہے کہ اسے اسٹبلشمنٹ کے قائدین کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے اس کے ادارہ جاتی مفادکے حوالے سے اچھے رویے، اور اس کے ناپسندیدہ لیڈروں کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کی ضمانت دینا ہوگی۔ اس لیے تمام نظریں نواز شریف پر مرکوز ہوں گی جن کے پاس اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی کنجی ہے۔ اگر وہ مرکزی کردار، چیف آف آرمی سٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ کو نشانہ بنانے سے گریز کرتے ہیں تو یہ سمجھا سکتا ہے کہ مذاکرات اس وقت تک پردے کے پیچھے جاری رہیں گے جب تک ”ضمانتیں” قائم نہیں ہو جاتیں۔ اس سے ایک تبدیلی کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ عمران خان کو ملنے والی موجودہ حمایت کو اعتماد شکنی سمجھ کر مشتعل ہو جاتے ہیں اور دوبارہ تنقید کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں تو عمران خان کو توقع سے زیادہ طویل مہلت مل سکتی ہے۔
نجم سیٹھی پاکستان کے مانے ہوئے صحافی و تجزیہ کار ہیں۔ وہ انگریزی ہفت نامے دی فرائیڈے ٹائمز کے مدیر، وین گارڈ پبلیشرز سے چیف ایگزیکٹو ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔