انسانی حقوق کی وزیر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے جبکہ حقائق اس کے الٹ ہیں

انسانی حقوق کی وزیر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے جبکہ حقائق اس کے الٹ ہیں
پاکستان کی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے گذشتہ ہفتے فرابکس کوٹین کی صدارت میں آئے ہوئے یورپی یونین کے وفد سے کہا کہ پاکستان یورپ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے تحفظات رکھتا ہے۔ چونکہ یہ  تحفظات مسلمانوں دوارے تھے اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس بات کا مقصد مسلمانوں کے حقوق کے مسئلے کو اجاگر کرنا تھا نہ کہ انسانی حقوق کو۔ انسانی حقوق کی وزارت کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں یہ نہیں بتایا گیا کہ شیریں مزاری کو کب یورپ میں انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے کنسلٹنٹ کے طور پر تعینات کیا گیا یا انہیں کب مسلم امہ کا ترجمان مقرر کیا گیا؟ اگر اس طرح کی کوئی تعیناتی عمل میں نہیں لائی گئی تو شیریں مزاری کا پاکستان میں انسانی حقوق کی تشویش ناک صورتحال کے پس منظر میں دنیا کے دوسرے ممالک میں پسے ہوئے طبقات کیلئے تحفظات کا اظہار کرنا ایک غیر منطقی فعل قرار دیا جا سکتا ہے۔ آخر شیریں مزاری کے اس بیان کا مقصد یہ تھا کہ وہ یورپی یونین کے وفد کے سربراہ کو جتلا سکیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی اور تحفظ حاصل ہے؟ بدقسمتی سے ان کا یہ بیان حقائق کے منافی ہے کیونکہ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال یورپ کی نسبت خاصی ابتر ہے۔

صنفی بنیادوں پر تفریق

شیریں مزاری صاحبہ چونکہ خود ایک خاتون ہیں اس لئے امید کی جا سکتی ہے کہ انہیں  یہ بات معلوم ہو گی کہ پاکستان ورلڈ اکنامک فورم کی صنفی بنیادوں پر تفریق کرنے والے ممالک کی فہرست میں مسلسل تین سال سے دوسرے بدترین ملک کے طور پر گردانا جا رہا ہے۔ اس سال ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق سال 2017 میں خواتین کے خلاف تشدد کے 10 ہزار واقعات سامنے آئے۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ تعداد ان واقعات کی ہے جو رپورٹ ہوئے۔ چونکہ اکثر و بیشتر خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے اس لئے اس رپورٹ کے مطابق ایسے واقعات کی تعداد منظر عام پر آنے والے واقعات کی نسبت کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔ ایک عدد پورا صوبہ خیبر پختونخوا جو کہ گذشتہ پانچ برس سے تحریک انصاف کی حکومت کی زیر نگرانی رہا، اس صوبے میں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کو جرم ہی نہیں گردانا جاتا۔ اس کے علاہ وطن عزیز میں قانون کے نظام کے متبادل کے طور پر جرگہ اور پنچائیت کا نظام بھی رائج ہے۔ جس میں کاروکاری، صلحِ بدل جیسی رسموں اور خواتین کے خلاف دیگر جرائم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ گو 2016 میں حکومت پاکستان کی جانب سے غیرت کے نام پر قتل اور اجتماعی و انفرادی جنسی زیادتی کی حوصلہ شکنی کیلئے دو نئے قوانین متعارف کروائے گئے تھے تاکہ قصاص اور دیت کے نام پر مجرموں کے رہا ہونے کا سلسلہ بند ہو سکے لیکن اس کے باوجود ان قوانین کی وجہ سے سال 2017 میں کوئی خاص بہتری نظر نہیں آئی۔ نہ تو خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں کمی آئی اور نہ ہی خواتین کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لا کر سزا دینے کا عمل بہتر ہونے پایا۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق  اب قانونی اور تکنیکی وجوہات کی بنا پر نئے نقائص سامنے نکل کر آئے ہیں جیسا کہ غیرت کے نام پر قتل کیا ہے، یا کون سا قتل غیرت کے زمرے میں نہیں آتا۔ ابھی اس فہرست میں صنفی بنیادوں پر تنخواہوں میں فرق اور صحت کے حقوق تک رسائی نہ ہونا شامل نہیں ہیں۔

جب ہیومن رائٹس واچ ایشیا کے ڈائریکٹر نے پاکستانی وزیراعظم کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی فہرست پر توجہ دینے کیلئے کہا تھا تو اس میں دو نکات خواتین سے متعلق تھے۔ کتاب فیمینزم کی مصنفہ اور ویمن ایڈوانسمنٹ ہب کی بانی  عائشہ سروری کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے عمران خان سے خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد کی روک تھام اور بچیوں کی تعلیم کو ممکن بنانے کیلئے ان دو اقدامات کو اپنی ترجیحی فہرست میں شامل کرنے کا کہا تھا۔



عائشہ سروری کے مطابق سیاستدانوں، پالیسی میکروں اور طاقت کے ایوانوں میں بسنے والوں کیلئے خواتین زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ البتہ کسی حکومت نے اس سے پہلے اپنی کسی دوست حکومت کو وطن میں موجود انسانی حقوق کی پامالیوں اور خلاف ورزیوں کے تناظر میں اس طرح سے مخاطب نہیں کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان تمام صنفی بنیادوں کے حوالے سے بدترین ملک ہونے کے باعث کسی دوسرے ملک کو اس حوالے سے مشورہ دینے یا اس پر تنقید کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رکھتا۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کہ پہلے ہیومن رائٹس واچ کی ساکھ پر سوالات اٹھائے جائیں اور پھر اسے کہا جائے کہ انسانی حقوق کے تحفظات کیلئے دنیا بھر میں اقدامات اٹھائے۔ انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے بطور خاتون اس استحصالی معاشرے میں بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ جہاں ہم ان کی کامیابیوں اور ہمت کو سراہتے ہیں وہیں ہم ان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ آئندہ اس قسم کے بیانات دینے سے پرہیز کریں گی۔

ہم جنس پرستوں اور خواجہ سراؤں کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے

پاکستان میں موجود ایل جی بی ٹی کمیونٹی نے بھارتی سپریم کورٹ کے سیکشن 377 کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے پر اپنے پڑوسی ملک کی کمیونٹی کے ساتھ جشن منایا تھا۔ انڈین پینل کوڈ کا یہ قانون ہم جنس پرستی پر سزائیں عائد کرتا تھا۔ ہینل کوڈ کا سیکشن 377 پاکستان میں آج بھی نافذالعمل ہے اور اسے کالعدم کرنے کی بحث کو شروع  کرنے کا بھی دور دور تک امکان موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر ہم جنس ہرستوں سے نفرت کا مطلب ہے کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی ہم جنس پرستوں کے حقوق تسلیم کرنے کی قرارداد کی خلاف ورزی کی ہے۔ 2003 سے 2008 تک پاکستان کا شمار ان ریاستوں میں ہوتا تھا جنہوں نے اس مسئلے پر ووٹنگ کے عمل میں روڑے اٹکائے، جبکہ 2011 اور 2015 میں جب اقوام متحدہ نے بالآخر ہم جنس پرستوں کے حقوق کو تسلیم کیا تو پاکستان نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔

شیریں مزاری صاحبہ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اقوام متحدہ کی ہم جنس پرستوں سے متعلق قرارداد کا مطلب ہرگز بھی ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی قرار دینا یا ہم جنس پرستی کو قبولیت کی سند دینا نہیں بلکہ اس کا مقصد محض اس کمیونٹی کے افراد کو انسان گردانتے ہوئے انہیں بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنا ہے۔ رواں برس خواجہ سراؤں کے حقوق کے بل کی منظوری نے وطن عزیز میں اس برادری کو شناخت عطا کی ہے لیکن ملک میں بسنے والے دیگر جنسی رجحان رکھنے والی آبادی کو نہ تو بنیادی حقوق حاصل ہیں اور نہ ہی انہیں تسلیم کیا جاتا ہے۔

پینل کوڈ میں موجود حدود آرڈیننس کی وجہ سے ایسے افراد آج بھی تشدد کی زد پر موجود ہیں۔ ایل جی بی ٹی کے حقوق کیلئے سرگرم سلمان خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق میں ہم جنس پرستوں کے خلاف بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کئی مرتبہ شکایات درج کروانے کی کوشش کی لیکن انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ پاکستان کا میڈیا بھی سینسرشپ کا شکار ہے اور شاذ و نادر ہی لیسبیئن یا ہم جنس پرست مردوں کی انسانی حقوق کی صورتحال پر کوئی خبر نشر کرتا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں کے خلاف بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات کی روک تھام کیلئے ہم نے کئی مرتبہ آواز بلند کی لیکن شیریں مزاری اس پر خاموش رہیں اور کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔ سلمان کا کہنا ہے کہ میں شیریں مزاری سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا خواجہ سرا اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟ یا وہ انسان ہی نہیں ہیں؟ ہماری انسانی حقوق کی وزیر کے پاس فلسطینیوں، کشمیریوں اور یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کے حقوق کی خاطر ٹویٹ کرنے کیلئے بے پناہ وقت موجود ہے لیکن انہیں خواجہ سراؤں کے اپنے ہی ملک میں بیہمانہ طریقے سے قتل کیے جانے کے واقعات کی مذمت کرنے کیلئے نہ تو وقت میسر ہے اور نہ انہیں اس مسئلے میں کوئی دلچسپی ہے۔

مذہبی نرگسیت پسندی

جہاں شیریں مزاری نے پاکستان میں انسانی حقوق کے حالات سے بالکل بے خبر ہونے کا ثبوت دیا ہے وہیں ان کی اس لاعلمی کا مرکز اقلیتوں کے حقوق کی پامالی اور ان  کی بگڑتی صورتحال ہے۔ گذشتہ ماہ جب فیصل آباد میں مشتعل ہجوم نے ایک احمدی عبادت گاہ پر حملہ کیا تو شیریں مزاری نے احمدی برادری کی حمایت یا ان کا حوصلہ بڑھانے کیلئے کوئی یکجہتی کا پیغام نہیں دیا بلکہ سارا وقت ٹویٹر پر اپنے ناقدین کے ساتھ بحث میں الجھی رہیں۔ اس حقیقت کو جانتے بوجھتے کہ وہ بطور ایک وفاقی وزیر احمدیوں پر ہونے والے حملے کے خلاف احمدی برادری کے حق میں بیان دے کر شدت پسندوں کے احتجاج کا نشانہ بن جائیں گی، پھر بھی وہ یہ سمجھتی ہیں کہ مذہبی اقلیتوں کو پاکستان میں مکمل آزادی حاصل ہے۔ پاکستان کے آئین سے باضابطہ طور پر احمدیوں کو بے دخل کرنے اور پینل کوڈ کے قوانین کے تحت انہیں نسلی عصیبت کا شکار کر کے انہیں اپنے عقیدے کی ترویج سے روکنے کے علاوہ توہین مذہب کے قوانین بھی موجود ہیں جو احمدی برادری کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ دیگر مذہبی اقلیتوں اور حتیٰ کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر دیگر مسلمان مسالک کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔

احمدیہ میڈیا سیل کے انچاج عامر محمود کا کہنا ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کیلئے صورتحال دن بدن بگڑتی جا رہی ہے۔ اگر ہم انسانی حقوق کی بات کریں تو اصول یہ ہے کہ تمام شہری برابری کا درجہ رکھتے ہیں لیکن احمدیوں کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ اس کا ثبوت احمدی مخالف قوانین کی موجودگی ہے۔ کسی بھی ریاست کے قوانین وہاں بسنے والے باشندوں کیلئے یکساں ہوتے ییں لیکن پاکستان میں ایسے امتیازی  قوانین موجود ہیں جو محض احمدی برادری کے خلاف بنائے گئے ہیں۔ یہ انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی ہے۔

عامر محمود کا مزید کہنا ہے کہ آئین کے تحت دیے گئے اختیارات جیسے کہ اظہار رائے کی آزادی، عقیدے کی آزادی اور اجتماع کی آزادی۔ یہ تمام حقوق احمدیوں سے سلب کر لیے گئے ہیں۔ ہم اپنے عقیدے کی تبلیغ تو دور کی بات اس پر عمل بھی نہیں کر سکتے۔ ہمارا مذہبی مواد ہماری اپنی برادری کیلئے پڑھنا بھی جرم قرار دیا جاتا ہے۔ برادری کے بانی کا مذہبی لٹریچر بھی کسی بھی رکن کے پاس رکھنا جرم ہے۔ پاکستان کا قانون اسلامی نسل پسندی کو فروغ دیتا ہے اور مذہب کی شدت پسندانہ تشریح کرتے ہوئے اسے مکمل طریقے سے لاگو کرنے کی بات کرتا ہے۔ جو کہ نہ صرف وطن عزیز کے جمہوری ملک کہلانے کے دعؤوں کا مذاق اڑانے کا باعث بنتا ہے بلکہ انسانی حقوق کے تحفظ کے دعؤوں کی قلعی بھی کھولتا دکھائی دیتا ہے۔ بہت سے لوگ حدود آرڈیننس کے باعث مرتد یا گستاخ کہلوائے جانے کے خوف سے اپنا عقیدہ چھوڑ دیتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ انہیں قانون کے مطابق اپنے ضمیر کی آواز پر مذہبی عقیدہ اپنانے کی اجازت ہو یہاں مذہبی شناخت ہی ختم کر دی جاتی ہے۔ کوئی بھی ریاست جو قانونی طور پر اپنے شہریوں کے درمیان امتیاز کرتے ہوئے کسی مخصوص گروہ یا فرقے کو دوسرے گروہ یا برادری پر فوقیت دے اسے کم سے کم اپنی مذہبی نرگسیت پسندی کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ ایسے حالات میں  انسانی حقوق کے تحفظ اور اقلیتوں  کو مکمل آزادی کے دعوے محض ملک کیلئے جگ ہنسائی کا ہی باعث  بنتے ہیں۔

اخلاقی و سماجی حقوق کی خلاف ورزیاں

پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں محض مذہبی، صنفی یا جنسی بنیادوں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ ان کا دائرہ کار وسیع ہے۔ اس میں معاشی اور سماجی استحصال، بچوں اور مزدوروں کے حقوق کی عدم فراہمی، صحت، تعلیم اور ماحولیات پر توجہ نہ دینا اور ضمیر، اجتماع، مذہبی ترویج، حرکات و سکنات اور اظہار رائے کی آزادیوں کی غیر موجودگی شامل ہیں۔ اس سے پہلے کہ پاکستان اپنے شہریوں کو انسانی حقوق فراہم کرنے اور اقلیتوں کو آزادی دینے کے دعوے کرے، اسے اپنے آئین اور پینل کوڈ کے قوانین میں ترامیم کی ضرورت ہے جو یہ تمام حقوق سلب کرنے کی وجہ ہیں۔ اور یہ انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کی پہلی بنیادی ذمہ داری اور ترجیح ہونی چاہیے۔

مصنف لاہور سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف پاکستانی اور بین الاقوامی جریدوں کے لئے لکھتے ہیں۔