کیا آپ بھی میری طرح ویہلے ہیں؟

کیا آپ بھی میری طرح ویہلے ہیں؟
آج کل بےروزگاری کے دن گزار رہا ہوں تو ہم نواؤں کا درد زیادہ قریب سے محسوس ہوتا ہے۔ وہ لوگ کہ جن کے ہاتھوں میں ڈگریاں ہیں مگر کسی کے فائدے کی نہیں۔ گھر بیٹھے یا تو گھر والوں سے جھگڑے مول لیے ہوتے ہیں یا پھر انٹرنیٹ گندہ کرنے کا ٹھیکہ۔ ہاں مگر ڈیٹنگ ایپس استعمال کرنا کوئی اتنا بھی بُرا کام نہیں۔ گھر بیٹھے نوجوانوں کو ایک طرف خود سے جاری جنگ سے فُرصت نہیں ہوتی کہ اس خلفشار میں اضافہ ہمارے شریک رشتہ دار کردیتے ہیں۔ 'میرا بیٹا تو فلانی کمپنی میں بڑا افسر لگ گیا ہے، گھر میں نوٹ دیتا ہے، اس کے لئے لڑکیاں دیکھ رہی ہوں، آپ کیا کرتے ہو بیٹا؟'۔ جواب میں ہلکی سی مگر بھرپور شرمندگی والی مسکراہٹ کے ساتھ کہہ دیا جاتا ہوگا کہ آنٹی کچھ بھی نہیں، جاب ڈھونڈ رہا ہوں۔ یا تو شدید طنز والی 'ہا ہائے' سُن لیں یا کہہ دیں کہ آنٹی آپ کا بیٹا میرا جونیئر ہے، محنتی ہے، اچھا کام کرتا ہے، دو میں سے ایک ہی بات ہوسکتی ہے۔

وال بنتا ہے کہ تین دہائیاں ہونے کو صرف تین سال باقی، اور کتنا پڑھنا ہے؟

امی نے تو یہ جھوٹ اس طرح سے سچ بنایا ہوا ہے کہ لڑکا ابِھی تعلیم مکمل کر رہا ہے، نوکریاں تو ساری زندگی کرنی ہی ہوتی ہیں۔ میں تو کہتی ہوں کہ اس دور میں تو لڑکا ہو یا لڑکی، سب کو پڑھائی مکمل کرنی چاہیے، زمانے کی مشکلات دیکھو کتنی بڑھ گئی ہیں۔ سوال بنتا ہے کہ تین دہائیاں ہونے کو صرف تین سال باقی، اور کتنا پڑھنا ہے؟ عمر کے اس حصے میں ہوں کہ ماں کو اب شادی کی بھی فکر رہتی ہے۔ رات گئے فون کالز پر مصروف رہنے تک پر نظر ہوتی ہے۔ کئی بار تو دن بھر یہی سننے کو ملتا ہے کہ اس کو کہو کہ اپنے اماں ابا سے بات کرے، اگر دونوں سنجیدہ ہو تو میں ان کا گھر بار دیکھوں تو کہ کیسے لوگ ہیں۔ کیا کہوں کہ یہ وہ نہیں جس کے بارے میں تصورات آسمان پر چڑھ بیٹھے ہیں۔ یہ بات بھی مجھے خوفزدہ اس لئے بھی کرتی ہے کہ معاشی ابتری میں بھی لوگ اس قدر کیسے سوچ لیتے ہیں۔ کبھی یہ بھی سوچا کہ اگر حالات یونہی رہتے ہیں تو اس بیچاری کا کیا قصور تھا کہ جس کی سزا دی جا رہی، اور ان بچوں کے حوالے سے بھی تصور کر لیں کہ جن کو پالنا پوسنا بھی انہیں حالات میں ہے۔

کاش کہ میں یہ خواب دیکھ پاتا، دیکھتا بھی جب اگر موٹیویشنل سپیکرز جیسی مخلوق سے ذرہ بھر بھی متاثر ہوتا

یہ چیز بھی شامل کر لیں کہ میں آج تک کسی موٹیویشنل سپیکر کا مرید نہیں رہا، نہیں تو شاید کچھ حالات بہتر ہوتے۔ بڑے بڑے خواب دیکھ کر ہی کچھ تو ذہنی سکون میسر یوتا۔ اماں کو کہہ رہا ہوتا کہ اب اچھے دن زیادہ دور نہیں ہیں۔ آپ گاڑی سے اُترو گی تو دس نوکر آپ کا استقبال کر رہے ہونگے۔ سردیوں میں برتن دھونے پڑیں گے اور نہ سخت گرمی میں کھانا پکانا پڑے گا۔ آپ کو صرف آرام کرنا ہوگا اور دُنیا بھر کی سیر کرنی ہوگی۔ اور ہاں تب دہی اور سبزی لینے بھی نوکر جایا کریں گے۔ کاش کہ میں یہ خواب دیکھ پاتا، دیکھتا بھی جب اگر موٹیویشنل سپیکرز جیسی مخلوق سے ذرہ بھر بھی متاثر ہوتا۔ عجیب کمفرٹ زون میں ہوں کہ اس سے باہر آ ہی نہیں پا رہا۔ ہر شے پر ہزاروں کیڑے بھرے سوال اس طرح اٹھا رہا ہوتا ہوں کہ جیسے میں ہی دُنیا کی ہر آخری ضد ہوں۔ کیا ایسا صرف میں ہی سوچ رہا ہوں؟

غربت کی وجوہات خارجی یا داخلی؟

پچھلے دنوں ایک کالمسٹ نے اس بات پر تجزیہ پیش کیا کہ غربت ہے تو ایک حقیقت ہی، مگر اس کی خارجی وجوہات یعنی کہ سرمایہ دارانہ نظام سے علیحدہ، کبھی یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس کی داخلی وجوہات کیا ہیں اور وہ کس حد تک اس کو قائم رکھنے میں مددگار ہیں۔ اس بات سے انکار پھر بھی نہیں ہے کہ چاہے جتنا ناچ لیں، یہ سچ ہے کہ داخلی وجوہات بھی مسائل کی پیدا کردہ ہوتی ہیں، وہ مسائل کہ جن کی پیداوار بھی وہیں سے ہوتی ہے جہاں سے عوام کو ریلیف دینے کے لئے سکیمز جاری ہوتی ہیں۔

زندگی میں بنیادی سہولیات کا فقدان انسانی معاشرے میں ایک بہت بڑی محرومی ہے جس کا احساس وہی طبقہ کر سکتا ہے جو اس سے دوچار ہے۔

کاش ہم وجودیت، معاشرت اور بین الاقوامیت جیسی بنیادی سوچوں پر ہم بات کرنے کے قابل تو ہوتے

طلبہ اس بات سے پریشان ہیں کہ یا تو تعلیم ہے ہی نہیں، یا ہے تو اس قدر ناقص کہ پڑھ لکھ کر نوکری ملنا تو محال، سوچ کی نشوونما جیسی چیز سے بھی محروم ہیں۔ میں اس تعلیمی نظام کی بات کر رہا ہوں جس کی تشکیل ہی انڈسٹری کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی تھی۔ مگر کیا اس کو اتنی ہی اہمیت ملتی بھی رہی کہ وہ آنے والے وقتوں کے تقاضے بھی پورے کر پاتا؟ خیر اس وقت بھی تکنیکی تعلیم اندرونی سے زیادہ بیرونی (عربی) دوستوں کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے متعارف کروائی گئی تھی۔ اس وقت کو اب میں کتنا روؤں، رونا تو مجھے آج پر بھی چاہیے کہ اگر سسٹم کی مختلف کڑیوں نے کام کرنا چھوڑ بھی دیا تو کم از کم یہ شعور تو دلا دیتے کہ وجودیت، معاشرت اور بین الاقوامیت جیسی بنیادی سوچوں پر ہم بات کرنے کے قابل تو ہوتے۔ خیر اس طرز سوچ کو بھی جس طرح سے سسٹم سے نکالا گیا وہ تو تقریباً ہم سب ہی جانتے ہیں۔

طلبہ انتظامیہ کی زیادتیوں پر احتجاح نہیں کر رہے بلکہ خود کی جان لے رہے ہیں

پچھلے دنوں یونیورسٹی کی پریشانیوں سے تنگ آ کر مرکزی دروازے کے سامنے ایک طالبعلم نے خودکشی کر لی۔ مطلب یہ تو نوکری نہ ملنے سے بھی پہلے کا سوال ہے کہ سسٹم نے طلبہ کو یہ کیا راہ دکھا دی ہے کہ وہ اساتذہ اور انتظامیہ کی زیادتیوں پر احتجاح نہیں کر رہے بلکہ خود کی جان لینے جیسا انتہائی قدم اٹھا رہے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں لیپ ٹاپ سکیم اور انٹرنشپ جیسی سکیمز کی کارآمدگی کو کس نظر سے دیکھا جائے؟ تعلیم کا بنیادی سوال تو طلبہ کی خودکشیوں اور شدید انتشار میں پنہاں ہے۔ اور ہم بیماری کو سمجھے بغیر سردرد یا بخار کا علاج عرصہ دراز سے کیے جا رہے ہیں۔

نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم اور بینظیر انکم سپورٹ بھی نیو لبرل ڈھونگ ہی ہیں

بالکل اسی طرح میں غربت میں پسی عوام کیلئے نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم اور بینظیر انکم سپورٹ جیسے بنیادی آمدن کے نیو لبرل ڈھونگ سے بیزار ہوں۔ سونے پہ سہاگہ معاشرے میں موٹیویشنل سپیکرز کی موجودگی سے ہوتا ہے۔ مطلب ایک کامیاب شخص کی کامیاب کہانی پیش کر کے آپ معاشرے کی ان متضاد حقیقتوں کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں؟ فرض کریں کہ دس لوگ محنت کر کے بہتر زندگی کے قابل خود کو محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ تو کیا بنیادی معاشی ناانصافی جیسا انتہائی سنجیدہ مسئلہ حل ہو گیا؟ کیا غربت اور امیریت کے بیچ کی لکیر مٹ چکی؟ نہیں تو میں کیسے یہ نہ کہوں کہ یہ خرافات بھی نیو لبرل ازم جیسے سرمایہ داری چہرے کی ہی پیشکش ہیں جس کا مقصد اس بات کی ضرورت کو دبانا ہے کہ عوام کو ان ڈرامے بازیوں کی نہیں بلکہ اصل معاشی و معاشرتی انصاف کی سخت ضرورت ہے۔ وہ معاشرہ کہ جس میں اس کی حیثیت پر اس کو شرمندہ کرنے والے سوال نہ ہوں، تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولتوں کے ساتھ اس بات کا یقینی ہونا کہ سرمایہ کسی ایسی جگہ یکجا نہ ہو جو عوام کو پیسنے والی چکی ثابت ہو۔ عوام کے مسائل کی اصل جڑ اسی سرمائے کا تصور ہے۔ یہی مارکسی نظریات کا بنیادی محرک بھی ہے۔ اب ان محرکات پر غور کیجئے جس سے کہ نئے پاکستان میں سرمایہ دار طبقہ خوش اور غریب دہائیوں سے افسردہ ہے۔ مجھے اجازت دیں کیونکہ اس سب کا ادراک ہوتے ہوئے بھی مجھے تو بہتر نوکری تلاش کرنی ہے۔ دردناک حقیقت ہے کہ معاشرے کے درد سے میرے خاندان کا پیٹ نہیں بھرتا۔ میں معاشرے کا ایک خود غرض انسان ہوں۔

سلمان درانی لاہور میں مقیم صحافی ہیں۔ بیشتر قومی اخبارات، اور آن لائن آؤٹ لیٹس پر رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل @durraniviews ہے۔