Get Alerts

’لبرل‘ آمر کی خوبیاں؟

’لبرل‘ آمر کی خوبیاں؟
ہنگامہ خیز اور پرتشدد حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے جو تلخی اور متشدد رویوں سے مزین ہیں اور پوری پاکستانی ریاست کو گھیرے ہوئے ہیں یہ شاید حیران کن امر نہیں ہے کہ پاکستان کی پہلے سے موجود مختصر ترقی پسندوں کی برادری میں سے کچھ افراد غیر روایتی لبرل سیاسی خیالات اور نظریات کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ ان غیر روایتی تصورات میں سے سب سے بڑا خیال یہ ہے کہ سیکیولر اور لبرلز پر مشتمل مطلق العنان کی وقتی اسٹیبلشمنٹ کسی طور ملکی مسائل کو کم سے کم پچاس فیصد کم کر کے ایک مستحکم جمہوریت کی بنیاد رکھے گی۔ گو ابتدا میں یہ نظریاتی طور پر منتشر گروہ کو ایک پرکشش خیال لگتا ہے جس سے وہ اپنے بگڑے حالات سنوار سکتے ہیں اور تصور کرتے ہیں کہ ایک ہم آہنگ سوچ والے مشترکہ امیدوار کو طاقت سونپ دی جائے جو پھر بتدریج اختلاف کرتی آوازوں کو ختم کر سکے۔ اس طرح کی سوچ فلسفیانہ طور پر ہی متضاد اور تباہ کن ہے۔
اگر آپ مقبولیت کو تمام چیزوں سے مقدم جانتے ہیں جو کہ کسی بھی طور پر عقلمندانہ فعل نہیں ہے تو آپ کو تمام مقبول خواہشات کو غیر مشروط طور پر تسلیم بھی کرنا چاہیے۔

یہ چند ترقی پسند اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے پاکستانی جو " لبرل آمر" کے اس خواب کو تعبیر کی جانب لے جانے کی بات کرتے ہیں نہ صرف کھلم کھلا اپنے مخالفین کے منہ پر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ لوگوں کی آراء ان کے نزدیک محض اس وقت اہمیت رکھتی ہے جب وہ ان کے خیالات سے مطابقت رکھتی ہے بلکہ وہ کھلم کھلا دانشوارانہ محاذ پر اپنی شکست کا اعتراف بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ آخر کار کسی بھی فرقے یا سوچ کے پیروکار فریب خیال میں مبتلا ہو کر خود کو ان  دھوکوں میں مبتلا رکھ سکتے ہیں جن کا محور طاقت پر قبضہ جمانا اور ان تمام متبادل نظریات کو ختم کرنے کے گرد گھومتا ہے جو تنقیدی جائزے کے گرد گھومتے ہیں اور ان میں سے چند مقبول خیالات پر بھی حاوی آ جاتے ہیں۔ اس طرح کے افراد کو پھر جمہوریت سے لگاؤ بھی چھوڑ دینا چاہیے۔ اگر ان کے نزدیک نظام محض اس وقت ہی معتبر ہے جب وہ ان کے مخصوص مفادات کا تحفظ کرے۔ اگر آپ مقبولیت کو تمام چیزوں سے مقدم جانتے ہیں جو کہ کسی بھی طور پر عقلمندانہ فعل نہیں ہے تو آپ کو تمام مقبول خواہشات کو غیر مشروط طور پر تسلیم بھی کرنا چاہیے۔

اومر ٹوریہوژ، پانامہ کا سابق ملٹری ڈکٹیٹر جو عوام میں بیحد مقبول تھا


حقیقت پسندی پر مبنی بات کی جائے تو ترقی پسند فرد کا کسی طور آمر بن جانے کا نظریہ پہلے سے ہی ایک نامعقول قیاس ہے۔ وہ کس طرح سے طاقت حاصل کریں گے اور اس پر گرفت قائم رکھیں گے؟ ان کی تائید کرنے والوں کی بنیادیں کہاں ہوں گی؟ اور وہ کس قسم کی خاص پالیسیوں کو اپنائیں گے؟ محسوس یوں ہوتا ہے کہ ابھی تک کسی نے بھی گہرائی میں جا کر کامیابی کے ساتھ " لبرل آمر" کو مسلط کرنے کے محرکات کے بارے میں غوروفکر نہیں کیا ہے۔ اگر بحث کی خاطر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ ایک ‘صحیح’ فرد طاقت حاصل کرے گا پھر بھی اس بات کا امکان بیحد کم ہے کہ وہ مطلوبہ تبدیلی لا پائے گا۔

پاکستان ایک منتشر اور بدنظمی کا شکار ریاست ہے جہاں قانون اور آئین کی عملداری ناپید ہے اور مرکزی حکومت کی اپنے اختیارات کو استعمال کرنے کی صلاحیت بھی محدود ہے۔ پاکستان نے اپنی تاریخ کا آدھا حصہ فوجی مارشل لاؤں تلے بتایا ہے اور اس سے گلیوں میں بسنے والے عام آدمی کی زندگی پر کوئی مثبت فرق نہیں پڑا ہے۔ ایک لبرل آمر کو اپنے تمام اصول بھلا کر قدامت پسند عوام کو خوش رکھنا پڑے گا اور ادارے بنانا پڑیں گے تاکہ وہ اپنی پوزیشن برقرار رکھ سکے۔



ابتدائی طور پر اگر ہمارا لبرل آمر معجزانہ طور پر اپنی مرضی مسلط کرنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ وہ تبدیل ہو کر ایک ظالم آمر نہیں بنے گا جیسے کہ کئی دور جدید کے آمر بن چکے ہیں۔ عراق کا صدام حسین، شام کا بشار الاسد اور شاہ ایران یہ تمام آمر ترقی پسند مزاج کے حامل اور سیکیولر اقدار کی جانب مائل تھے لیکن کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ ان تینوں پسندیدہ رہنماؤں نے شدت پسند متبادل ذرائع کو فروغ دیا۔

ایک پاکستانی لبرل آمر شدت پسندی ختم کرنے کے بجائے شدت پسندی کے خطرے کو زندہ رکھنا چاہے گا تاکہ اس کی آڑ میں وہ اپنی کوتاہیاں چھپا سکے۔ ایک سیاستدان کیلئے یہ سودمند ہوتا ہے کہ وہ دو برے اشخاص میں سے کم برا شخص ہے، جبکہ آمر کیلئے یہ خدا کی جانب سے ایک تحفہ ہوتا ہے اگر اس کا دشمن غیر منطقی بنیاد پرست ہو جو ریاست کی بقا کیلئے خطرات پیدا کرنے کی استعداد تو نہیں رکھتا لیکن عوام کو دہشت زدہ کرنے کی قابلیت رکھتا ہے، اور عوام پھر اپنے مسیحا (آمر) کے سامنے سربسجود ہو جاتی ہے تاکہ وہ انہیں بچا سکے۔ شام میں بشارالاسد سول وار کے باوجود ابھی تک اقتدار کی مسند پر فائز ہے کیونکہ اس کی معتدل مزاج اور جمہوریت پسند اپوزیشن کی جگہ داعش اور مختلف شدت پسند تنظیموں نے لے لی ہے۔ متبادل کی ساکھ متاثر  ہونے سے دمشق کو بے پناہ فائدہ حاصل ہوا ہے۔



اس لئے اس بات پر شک کرنے کی گنجائش بہت کم ہے کہ ایک سیکیولر پاکستانی آمر اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر عوام کے خلاف ایک غیر معمولی خطرے کو تیار نہیں کرے گا۔ اگر ہمارا آمر اپنی مرضی مسلط کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ہوا تو وہ ظلم کی جانب مائل ہو جائے گا اور اگر وہ مرضی نہ کر پایا تو وہ ایک اور ناکارہ آمر ثابت ہو گا۔

حقیقت میں یہ انتہائی بیوقوفانہ سوچ ہے کہ کسی وقت "صیح آدمی" اچانک سے نمودار ہو گا اور محض اپنے ارادے کے بل بوتے پر پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنا ڈالے گا۔ پاکستانیوں کی نظم و ضبط والی مضبوط سیاسی جماعتوں اور قابل حکومتی مشینری کو پسند کرنے کے بجائے شخصی کرشمے سے متاثر ہونے کی عادت نے عوام کو مسیحا کے بخار میں مبتلا کر ڈالا ہے جس کے باعث یہ عوام محض یہ تصور کرتی ہے کہ ایک ہیرو آئے گا اور اپنی غیر معمولی قوتوں کے دم پر ملک کے تمام مسائل پلک جھپکتے ہی حل کر ڈالے گا۔ لوگوں کو یہ حقیقت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی بڑے سے بڑا رہنما بھی اداروں کے ڈسپلن اور فعال بیوروکریسی کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ ہمارے لئے یہ بہتر ہے کہ ہم نامعقول اور مضحکہ خیز باتوں کے بارے میں خواب دیکھنے میں وقت اور وسائل کا زیاں کرنے کے بجائے اپنے وسائل سیاسی نظام کی پختگی، مضبوطی اور اسے بتدریج بہتر بنانے پر صرف کریں۔