آج کل گلگت بلتستان کے صوبہ بننے کی باتین چل رہی ہیں۔ اگر یہ صوبہ بنتا ہے تو پاکستان کا پانچواں صوبہ ہوگا۔ کچھ لوگ نئے صوبے کو ایک خوش آئند عمل قرار دیتے ہیں اور کچھ ناممکن اور کچھ لوگ نئے سیٹ آپ کی بات کرتے ہیں۔ کلگت بلتستان میں الیکشن قریب ہے اور کچھ لوگ اسی تناظر سے دیکھتے ہیں۔
سابق ممبر پلاننگ کمیشن و تاریخ نویس امان اللہ خان کا گلگت ٹی وی کے پروگرام میں میزبان شبیر میر کے گفتگو میں کہنا تھا کہ
گلگت اور چترال کو کشمیر سے ملانا اور متنازعہ بنانا زیادتی ہے۔ یہ پرنس اسٹیٹ تھے اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان سے الحاق کر چکے ہیں۔ اس الحاق کے بعد متنازعہ والی کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سے نوجوان نسل میں احساس محرومی ختم ہو جائے گی یہ ایک خوش آئند بات ہے۔
اس مسلے پہ مقامی صحافی شبیر میر سے بات کی۔ اُن کا کہنا ہے کہ فی الحال حکومت نئے صوبے کے نعرے کو کیش کرے گا۔ اور جب حکومت بنے گا پھر عبوری صوبہ بنائیںگے اور مرکز میں بھی گلگت بلتستان کی نمائندگی ہوگی۔ اس مسئلے پہ کشمیری اعتراض بھی کرسکتے ہیں پھر ان کے ساتھ بھی سیٹلمنٹ کریں گے۔ حکومت آنے کے بعد گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنانے میں ایک دو سال لگے گا۔ ویسے کاغذوں میں لداخ اور کارگل کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔
اس مسلے پہ لوکل ریسرچر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما عباس موسوی سے بات کی اُن کا کہنا تھا۔ میرے اطلاعات کے مطابق گلگت بلتستان آئینی عبوری صوبہ بنے گا اور میں اس کو اسپیشل اسٹیٹس کہتا ہو۔ اس صوبے میں لداخ اور کارگل کو بھی شامل کیا جائے گا۔ اور مرکز میں گلگت بلتستان کی نمائندگی ہوگی۔ اور گلگت بلتستان میں حکومت بننے کے بعد آئین کے کچھ آرٹیکلز میں تبدیلی کرکے پانچواں صوبہ عمل میں لایا جائے گا۔ اس سے گلگت بلتستان کے عوام میں احساس محرومی کا خاتمہ ہوگا۔ اور گلگت کے نمائندوں کو پاکستان کے پاور ہاؤسز میں رسائی مل سکے گی۔
قوم پرست رہنما نواز خان ناجی اس فیصلے کو سیاسی گیم قرار دے رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ کشمیر کا مسلہ خراب ہوگا۔ جو حل طلب ہے۔ اُن کا مزید کہنا ہے۔ اگر ایسا کچھ ہوتا ہے جس سے گلگت بلتستان کے عوام کو فائدہ ہو ہمارے لئے اس سے خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ لیکن عجلت میں لئے گئے فیصلے کسی کے مفاد میں نہیں ہوتے۔
عوامی ورکر پارٹی کے کارکن عنایت ابدالی کہتے ہیں۔ ریاست پاکستان کا یہ موقف ہے کہ ریاست جموں اینڈ کشمیر متنازع ہے جب پاکستان گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنائے گی تو ریاستی موقف کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر پر انڈیا کا تسلط مزید مضبوط ہوگا تحریک آزادی کشمیر تاریخ کا حصہ بن جائے گا اور کشمیریوں (لداخ،جموں ، مظفرآباد ،جموں اور گلگت بلتستان ) کے حق رائے دہی کا سوال ختم ہوکر رہ جائے گا۔ ہم ترقی پسند سیاسی کارکنوں کا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کے قراردادوں کے مطابق مسلے کا حل چاہتے ہیں۔
اور ہم چاہتے ہیں۔ دفاع کے علاوہ تمام تر اختیارات گلگت بلتستان اسمبلی کو منتقل کیا جائے۔ اس سے مسلہ کشمیر پہ کوئی فرق پڑے گا۔ گلگت بلتستان کونسل کا خاتمہ کرکے اختیارات گلگت بلتستان اسمبلی کو دیا جائے۔ کشمیر افیرز کا بھی مکمل خاتمہ کیا جائے۔
اس سلسلے مختار حسین شاہ کہتے ہیں۔ گلگت بلتستان کا صوبہ بن جانا ہمارے لئے خوش آئند ہے۔ کیونکہ ہماری بھی سنٹرل میں نمائندگی ہوگی اور ہماری آواز سُنی جائے گی۔ پاکستان ہمارا پہچان ہے۔ ہم تو یہ چاہتے تھے ہمیں بھی اپنایا جائے اور احساس محرومی کا خاتمہ ہو