کشمیری قیادت گلگت بلتستان کے آئینی صوبہ بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے

کشمیری قیادت گلگت بلتستان کے آئینی صوبہ بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے
سابق وفاقی وزیر گلگت بلتستان و کشمیر علی امین گنڈا پور 2020 کے الیکشن کے دوران گلگت بلتستان میں الیکشن مہم کے لئے پہنچے اور جگہ جگہ اپنی تقاریر میں انہوں نے اعلان کیا کہ گلگت بلتستان کو ہماری حکومت ہی آئینی صوبہ بنائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے یہاں کے عوام کو خوشخبری دینے کے لئے مجھے بھیجا ہے۔ اس الیکشن میں یہاں کے لوگوں نے اس امید پر تحریک انصاف کو بھاری اکثریت سے جتوایا کہ عمران خان اس علاقے کے عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا کریں گے۔ یہ وعدہ صرف تحریک انصاف کی حکومت نے نہیں کیا تھا بلکہ ہر الیکشن میں وفاق میں موجود حکومتوں نے وعدہ کر کے یہاں کے عوام سے ووٹ تو لیا لیکن جیتنے کے بعد یہ ہوا کہ جیسے انتخابات سے پہلے کچھ کہا ہی نہیں تھا۔

2015 کے گلگت بلتستان الیکشن کے دوران مسلم لیگ کے نمائندہ وفاقی وزیر برجیس طاہر نے بھی انتخابی مہم کے سلسلے میں گلگت بلتستان کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے بھی آئینی صوبے کو بہانہ بنا کر ووٹ لیا لیکن اس الیکشن کے بعد مسلم لیگ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے حوالے سے کافی حد تک کام کیا اور سابق مشیر خزانہ سرتاج عزیز کی زیرصدارت کمیشن بھی بنایا گیا جس کی سفارشات تو سامنے آئیں لیکن ان پر عمل درآمد کے لئے آئین میں ترمیم نہیں ہوئی۔ جبکہ تحریک انصاف حکومت کے دور میں یعنی جنوری 2021 میں گلگت بلتستان کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں مبصر کے طور پر نشستیں دینے کی خبریں اخباروں کی زینت بنی تھیں لیکن وقت کے ساتھ یہ خبریں بھی کھوکھلے وعدے ثابت ہو کر دم توڑ گئیں۔

گلگت بلتستان کا تاریخی پس منظر

عابد حسین تاریخی موضوعات پر تحقیقی مضامین لکھتے ہیں اور ان کو گلگت بلتستان کی تاریخ پر عبور حاصل ہے۔ عابد حسین کے مطابق راجا گلاب رائے کے صاحبزادے رنبیر سنگھ نے گلگت بلتستان پر 1842 میں قبضہ کر کے زبردستی اسے کشمیر کا حصہ بنا دیا تھا۔ ڈوگرہ سرکار اور اس کی افواج نے 108 سال تک گلگت بلتستان کے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ 14 اگست 1947 کو جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس وقت گلگت بلتستان کے لوگوں کے دلوں میں بھی آزادی کی امنگ جاگنے لگی اور اسی دن سے کرنل مرزا حسن خان کی قیادت میں جنگ آزادی شروع ہوئی۔ اسی جنگ کے نتیجے میں نومبر 1947 تک گلگت اور استور کے علاقے آزاد کرا لیے گئے تھے۔ بعد ازاں بلتستان کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت جنگ آزادی کے لئے کمر کس لی اور مختصر مدت میں کارگل تک کے علاقے ڈوگروں کے چنگل سے آزاد کروا لیے۔ یوں یہ علاقہ آزاد ہوا اور یہاں کے عوام نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ یوں یہ خطہ پاکستان کے زیر انتظام جموں اور کشمیر کی طرح پاکستان کے عارضی انتظام میں آ گیا اور 1948 سے 1972 تک یہ علاقہ پاکستان کے زیر انتظام ضرور رہا مگر پاکستان کے قبائلی علاقوں کی طرح یہاں بھی فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز یعنی ایف سی آر کا قانون نافذ رہا۔

قانون دان اشفاق احمد ایڈووکیٹ کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ قانونی شعبے سے ان کا تعلق ہے اور گلگت بلتستان کی تاریخ و موجودہ حالت پر مکمل تحقیق کر کے مضامین لکھتے ہیں۔ اشفاق احمد کے مطابق گلگت بلتستان جسے یہاں کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر آزاد کروایا تھا، اسے کشمیر کے ساتھ ہی متنازعہ علاقہ قرار دے دیا گیا۔ یہ خطہ کشمیر کا حصہ ہے ہی نہیں مگر اسے زبردستی کشمیر کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ 28 اپریل 1949 کو کشمیری قیادت نے گلگت بلتستان کے انتظامی اختیار کو معاہدہ کراچی کے تحت حکومت پاکستان کے سپرد کر دیا تھا لیکن معاہدہ کراچی کے موقع پر گلگت بلتستان کا کوئی نمائندہ موجود ہی نہیں تھا۔ یوں اس علاقے کو کشمیری قیادت نے جان بوجھ کر کشمیر کے ساتھ نتھی کیا اور متنازعہ قرار دے کر اس علاقے اور یہاں بسنے والے لاکھوں لوگوں کے ساتھ ظلم کیا۔ اس معاہدے کی وجہ سے آج تک گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت حاصل نہیں ہوئی اور یہ وجہ ہے کہ یہاں کے عوام کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کی نمائندگی کا حق بھی نہیں حاصل ہو پایا۔ یہاں تک کہ اعلیٰ انتظامی عہدوں کے لئے بھی یہاں کے شہری اہل نہیں قرار پا سکے۔

گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی


ستمبر 2009 میں سابق صدر آصف علی زرداری نے گلگت بلتستان سیلف گورننس آرڈیننس کے نام سے ایک صدارتی آدرڈیننس جاری کیا جس کے تحت پہلی بار گلگت بلتستان کے عوام کو قانون سازی کے لئے اپنا نمائندہ چننے کا موقع دیا گیا۔ یوں پہلی بار قانون ساز اسمبلی کی 24 نشستوں پر انتخابات منعقد ہوئے جن میں پیپلز پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی۔ پہلی مرتبہ انتظامی امور کی سربراہی وزیر اعلیٰ کو سونپ دی گئی۔ پیپلز پارٹی حکومت نے آئینی سیٹ اپ میں مزید اصلاحات متعارف کرائیں اور پہلی دفعہ چھوٹے پیمانے پر ٹیکسز کا نفاذ کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے ایکسائز اور ٹیکسیشن کے محکمے کا قیام عمل میں لایا گیا مگر یہاں کے عوام نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور کہا کہ مکمل آئینی صوبے کا درجہ ملنے تک ہم ٹیکس دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس معاملے پر بڑے پیمانے پر احتجاج بھی ہوئے۔

مکمل آئینی صوبے کے عمل میں رکاوٹ کون ہے؟

ماہر آئین و قانون ذوالفقار علی خوجا ایڈووکیٹ کا تعلق سکردو سے ہے۔ وہ ملکی خاص طور پر گلگت بلتستان کی سیاست و تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو 1949 میں ہونے والے معاہدہ کراچی کے تحت یہاں کے عوام کی خواہش کے برعکس کشمیر کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل تک اس علاقے کو متنازعہ علاقہ ہی تصور کیا جائے گا۔ کشمیر کی وجہ سے گلگت بلتستان کو بھی متنازعہ علاقہ تصور کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب کشمیر کی قیادت بھی نہیں چاہتی کہ گلگت بلتستان کو پاکستان اپنے مکمل آئینی دھارے میں شامل کرے۔ کشمیری قیادت کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے سے کشمیر پر پاکستان کا مؤقف کمزور پڑ جائے گا۔

واضح رہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی حریت پسند قیادت نہیں چاہتی کہ گلگت بلتستان پاکستان کا مکمل و آئینی صوبہ بنے۔ سرتاج عزیر کی قیادت میں جب کمیٹی بنی تھی اس وقت بھی کشمیری قیادت جن میں سابق وزرائے اعظم فاروق حیدر اور سردار سکندر حیات خان پیش پیش تھے، انہوں نے اخباری بیانات کے ذریعے پاکستانی ریاست کو متنبہ کیا تھا کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے، پاکستان اسے کشمیر سے الگ کر کے صوبے یا یونٹ کا درجہ نہیں دے سکتا۔

دوسری جانب گلگت بلتستان کے عوام کی شکایت یہی رہی ہے کہ جب بھی گلگت بلتستان کو کچھ دینے کی بات چلتی ہے تو کشمیری قیادت کو تکلیف پہنچتی ہے اور یہ قیادت ریاست اور حکومت پاکستان کو بلیک میل کرنا شروع کر دیتی ہے جو گلگت بلتستان میں بسنے والے لاکھوں لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔

گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ


گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ نے ہمیں بتایا کہ مسئلہ کشمیر کی تین اکائیاں ہیں؛ مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل تک یہ علاقے کسی بھی ملک کا آئینی حصہ نہیں بن سکتے لیکن بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 31 دسمبر 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کو معطل کر کے مقبوضہ کشمیر کو مکمل بھارتی ریاست بنا لیا تھا۔ آرٹیکل 370 میں مقبوضہ کشمیر کے الگ آئین اور جھنڈے کے ساتھ اندرونی انتظامی خود مختاری کا ذکر بھی شامل تھا۔ سید مہدی شاہ کے مطابق بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 معطل کرنے کے بعد اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت نہ دینے کا جواز ہی ختم ہو گیا ہے۔ اب گلگت بلتستان کو بھی آئینی صوبہ بنایا جانا چاہئیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے گلگت بلتستان کو 2009 میں سیلف گورننس کے تحت شناخت دی۔ قانون ساز اسمبلی اور وزیر اعلیٰ کا عہدہ بھی پیپلز پارٹی نے متعارف کرایا۔ مجھے پہلا وزیر اعلیٰ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور پیپلز پارٹی ہی وہ واحد جماعت ہے جو گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق دلا سکتی ہے۔ ابھی تو وفاقی سطح پر آئینی حیثیت یا صوبے کے حوالے سے کوئی بات چیت نہیں چل رہی۔ 2023 کے عام انتخابات کے بعد جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئے گی تو اس ضمن میں پھر سے کوششیں شروع کر دی جائیں گی۔

گلگت بلتستان کے عوام کیا چاہتے ہیں؟

گلگت بلتستان اویئرنس فورم کے رہنما انجینیئر شبیر حسین کے مطابق گلگت بلتستان کے عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت ڈوگروں سے آزادی حاصل کی تھی اور اللہ کے نام پر پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا لیکن یہاں کے عوام کو پچھلے 75 سالوں سے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ یہاں کا ہمیشہ مؤقف رہا ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں ہے۔ انیسویں صدی میں کشمیر کے ڈوگرہ راجا نے قبضہ کر کے جبری طور پر اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا تھا اور بعد ازاں 1948 میں یہاں کے عوام نے ڈوگروں سے لڑ کر آزادی حاصل کرلی اور پاکستان میں شامل ہو گئے لیکن 1949 میں ہونے والے نام نہاد معاہدہ کراچی کے ذریعے سے اس خطے کو بھی کشمیر کے ساتھ زبردستی شامل کر لیا گیا حالانکہ اس معاہدے کے وقت گلگت بلتستان کا کوئی بھی نمائندہ موجود نہیں تھا۔ حقائق جاننے کے باوجود بھی ریاست نے اس معاہدے کو تسلیم کر لیا۔
یوں گلگت بلتستان کے عوام میں نا ختم ہونے والی بے چینی شروع ہو گئی۔ اب یہ کھیل ختم ہونا چاہئیے اور گلگت بلتستان کو مملکت پاکستان کا آئینی صوبہ قرار دیا جانا چاہئیے۔ جب بھی گلگت بلتستان میں الیکشن ہوتے ہیں ساری سیاسی جماعتیں ہمارے ساتھ صوبے کو آئینی حیثیت دینے کے وعدے کر کے ووٹ لے لیتی ہیں اور جیتنے کے بعد یہ وعدہ وفا نہیں کرتے۔

سرور حسین سکندر کا تعلق سکردو کے علاقے مہدی آباد سے ہے۔ وہ بین الاقوامی تعلقات میں ایم ایس سی کر چکے ہیں اور گزشتہ آٹھ سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ سرور مختلف سماجی مسائل سے متعلق تحقیقاتی رپورٹس تحریر کرتے رہتے ہیں۔