Get Alerts

گلگت، دیامر، بلتستان پر مشتمل صوبہ قراقرم بنانے کا بہترین وقت یہی ہے

گلگت، دیامر و بلتستان میں موجود تمام مذہبی، قومی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں سے التجا ہے کہ وہ اسلامی تحریک کے پرانے نعرے 'ترقی کا ایک منصوبہ، پانچواں صوبہ پانچواں صوبہ' میں نئی جان ڈالیں اور حکومت و عوامی نمائندوں کے ساتھ مل کر علاقہ گیر تحریک کا آغاز کریں۔

گلگت، دیامر، بلتستان پر مشتمل صوبہ قراقرم بنانے کا بہترین وقت یہی ہے

گلگت، دیامر اور بلتستان کو اب ایک اور فارورڈ بلاک اور امجد ایڈووکیٹ کی ضرورت ہے جو گلگت، دیامر و بلتستان کو پاکستان کی پانچویں اکائی یعنی صوبہ بنانے کے لیے اسی تیزی، دل جوئی اور عقلمندی سے اقدامات اٹھائے جو انہوں نے پی ٹی آئی کی حکومت گرانے اور گلبر خان کی حکومت کو بنانے کے لیے اٹھائے تھے کیونکہ اب ہوا بتا رہی ہے کہ پاکستان میں ایک ایسی حکومت ہے جسے مقتدر حلقوں کی مکمل حمایت حاصل ہے اور ان کے ساتھ مل کر کسی بھی انہونی کو ہونی میں تبدیل کروا سکتی ہے۔

میں گلگت، دیامر و بلتستان میں موجود تمام مذہبی، قومی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں سے یہی التجا کرتا ہوں کہ وہ اسلامی تحریک کے پرانے نعرے 'ترقی کا ایک منصوبہ پانچواں صوبہ پانچواں صوبہ' میں نئی جان ڈالیں اور حکومت و عوامی نمائندوں کے ساتھ مل کر جو ہر بار کہتے ہیں ہم تیار تو ہیں صوبہ بنانے کے لیے بس کشمیر کاز کو نقصان نہ پہنچے اور وفاق اب ایک اچھا پیکج دے رہا ہے، اس طرح کا راگ اقتدار کے وقت الاپتے اور اقتدار جانے کے بعد صوبہ کے لیے جان تک نچھاور کرنے کے وعدے وعید کرنے والوں کے ساتھ مل کر علاقہ گیر تحریک کا آغاز کریں جس میں تمام شعبہ جات کی نمائندگی ہو، خاص کر وکلا، سول سوسائٹی اور علما کرام کی موجودگی کو یقینی بنائے تاکہ آنے والی کسی بھی پارٹی کو صوبے والا چورن نہ بیچنا پڑے اور وہ تمام تر توانائی صرف کر کے عوام کی بنیادی ضرورتوں مثلاً صحت، تعلیم، روزگار کے مواقع و دیگر ضرورتوں کو پورا کرے۔

نادرن ایریاز کے تمام سٹیک ہولڈرز کا روز اوّل سے ہی صوبہ خواب رہا ہے جو آج تک شرمندہ تعبیر نہ ہوا مگر اس بار جس طرح کے ہمارے اسمبلی اراکین ہیں اور ملکی حالات ہیں یہ کسی بھی ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں۔

اب مسئلے کی نشاندہی تو کی مگر اس سے منسلک ایک اور بات یہ ہے کہ گلگت، دیامر و بلتستان اگر صوبہ بنتا ہے تو سب سے زیادہ فائدہ انہی حکومتی ایوانوں میں بیٹھے اشخاص اور اسمبلی ممبران کو ہی ہو گا۔ اگر نادرن ایریاز کو مکمل صوبہ بنایا جاتا ہے تو مجبوراً علامتی اسمبلی کو بھی اختیارات منتقل کرنا پڑیں گے جس کا موازنہ اگر ہم پنجاب یا سندھ کی اسمبلیوں سے کریں تو ان کا حال یہ ہے کہ اگر ہمارے فاضل ممبران کوئی قانون بناتے ہیں اور وزیر اعظم پاکستان کو یہ پسند نہیں آتا تو وہ یہ قانون امریکہ کے مانند ویٹو کرنے کا باقاعدہ قانونی اختیار رکھتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ سراسر ہمارے اسمبلی ممبران اور ان کے ہاؤس پر شب خون مارنے کے مانند ہے۔ ساتھ ساتھ شمالی پاکستان کے لوگوں پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ ان کے منتخب کردہ نمائندوں کا بنایا ہوا قانون اور بلز کو اک ایسا وزیراعظم ویٹو کرتا ہے جس کو نہ تو وہ منتخب کرتے ہیں اور نا ہی ان کے پاس انتخاب کرنے کا اختیار ہے۔

نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

شمالی علاقوں کے تناظر سے دیکھا جائے تو یہاں جمہوری حکومتوں سے زیادہ فوجی حکومتوں نے اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ جنرل ضیاء نے اپنے دور میں شمالی علاقوں سے اراکین کا اسمبلی میں انتخاب کیا۔ مشرف بھی کم و بیش کشمیر اور شمالی علاقوں کے لیے کارآمد فارمولا بنانے میں کافی حد تک کامیاب رہا تھا۔ فوجی حکمرانوں کو شمالی پاکستان کی تمام تر سٹریٹجک خصوصیات کا بخوبی اندازہ تھا اسی لیے انہوں نے شمالی علاقوں اور یہاں کے لوگوں کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے تھے۔ جمہوری حکومتوں کی اگر بات کی جائے تو بھٹو نے اپنے دور میں شمالی علاقوں کے لیے پالیسی مرتب کرنا چاہی مگر کشمیری رہنماؤں نے بھٹو کو کشمیر کاز پر اثرانداز ہونے کا برملا اظہار کیا اور اس طرح یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔

اب 77 سالہ جدوجہد کا حل موجودہ حکومت جس کو ابھی کے حالات کے تناظر سے دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام مقتدر حلقوں کی سپورٹ حاصل ہونے کا قوی امکان ہے، کو نکالنا ہوگا اور ان کو بھی انڈیا کی طرح شمالی پاکستان اور کشمیر کو اپنا آئینی حصہ ڈکلیر کر کے الگ الگ صوبہ بنانا ہو گا۔ اس طرح خاص طور پر شمالی علاقوں کے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو گی جو دنیا میں واحد علاقے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کے لوگ اس بات سے قطع نظر کہ پاکستان کے دوسرے علاقوں میں دشمن اور بیرونی طاقتیں لوگوں کو بغاوت پر اکسانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں، اس علاقے کے لوگ پاکستان ہیں تو ہم ہیں والی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں اور اس پر عمل پیرا بھی ہیں۔

شمالی پاکستان کے لوگوں نے بزور بازو خود آزادی حاصل کی اور الحمد اللہ آج بھی مجھ جیسے نوجوان اپنے بڑوں کے اس فیصلے کا ببانگ دہل دفاع کرتے ہیں اور انشاء للہ پاکستان بھی ہمیں محض سبسڈیز دینے کے بجائے دوسرے صوبوں کی طرح اپنا اٹوٹ انگ سمجھتے ہوئے آئینی حصہ قرار دے گا۔ ریاست یہاں پر موجود وسائل کو ناصرف شمالی علاقوں کے لوگوں تک پہنچائے گی بلکہ پاکستان کو بھی اس کے ثمرات پہنچانے میں حائل تکنیکی رکاوٹوں کو دور کرے گی۔

بصورت دیگر اگر شمالی علاقوں کو صوبہ بنانے سے پاکستان کا کشمیر پر اپنایا گیا مؤقف کمزور ہوگا تو اس علاقے پر سٹیٹ سبجیکٹ رول کا نفاذ کرے اور یہاں کے لوگوں کو کشمیر طرز کا سیٹ اپ دے تا کہ کشمیر پر پاکستان کا مؤقف بھی قائم رہے اور ہمارے لوگ بھی جو خود آزادی حاصل کر کے پاکستان کے ساتھ غیر مشروط شامل ہونے کے باوجود کشمیر کا حصہ ہونے کا ٹیگ لیے پھرتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے، کشمیریوں کی طرح اقتدار اور اپنے علاقے کا مزہ لیں اور کشمیر مسئلے کے حل ہو جانے کے بعد بھی یہاں کے لوگوں کا ایک ہی نعرہ ہوگا ہم پاکستان کے ہیں اور پاکستان ہمارا۔

خلیق زیب فارمن کرسچیئن کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہیں اور اب قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔