ضیائی مارشل لا کا سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ مرکز اور چاروں صوبوں میں اپنی پسند کے لوگوں کو حکومت میں شامل کیا جا رہا تھا کہ ایک دن جنرل صاحب کی نظر لاہور کے مشہور و معروف صنعتکار میاں محمد شریف کے بڑے صاحبزادے میاں نواز شریف پر پڑی اور انہیں پنجاب کا وزیر خزانہ بنا دیا۔
1985 میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے تو میاں نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ میاں نواز شریف کے دور وزاتِ اعلیٰ میں پنجاب کی حالت بدلنا شروع ہوئی اور وہ پنجاب کے عوام میں مقبول ہوتے چلے گئے۔ جنرل ضیاالحق کے طیارہ حادثہ کے بعد چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان نے صدر کا عہدہ سنبھالا اور 1988 میں جماعتی بنیاد پر انتخابات ہوئے تو مرکز میں بینظیر بھٹو وزیراعظم بنیں جبکہ پنجاب میں میاں صاحب کامیاب ہو کر ایک بار پھر وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ لیکن، صرف 20 ماہ بعد ہی صدر غلام اسحاق خان نے آئین کی شق 58/2 ب کا استعمال کرتے ہوئے بینظیر حکومت کو برخاست کر دیا اور یوں 1990 میں پھر انتخابات ہوئے۔ اس بار میاں نواز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے۔
صدر غلام اسحاق خان کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے آدمی تھے، لہٰذا اسی کی ہدایات پر عمل کرتے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کسی ایسے وزیراعظم کو برداشت کرنے کو نہ کل تیار تھی نہ آج ہے جو ان کی بنائی حدود سے تجاوز کرے۔ لہٰذا ڈھائی سال بعد ہی نواز شریف بھی ان کی آنکھ میں کھٹکنے لگے۔ لیکن لوگوں کو حیرت اس وقت ہوئی جب میاں صاحب نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے پوری سازش سے پردہ اٹھا دیا اور کہا کہ میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔ صدر غلام اسحاق نے آئین کے تحت حاصل اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کر دی تو میاں صاحب کی حکومت نے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلینج کر دیا اور سپریم کورٹ نے اسمبلی کی تحلیل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے دوبارہ بحال کر دیا۔ لیکن صدر غلام اسحاق نے اس فیصلے کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت میں بغاوت کرا دی۔ جس کے نتیجہ میں صدر اور اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ میاں منظور وٹو وزیراعلیٰ بن گئے، جس سے مرکز اور صوبے کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ اس مرحلہ پر اس وقت کے آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ نے مداخلت کی لیکن میاں صاحب نے سخت مؤقف اپنایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں جاؤنگا تو صدر بھی جائے گا اور یوں دونوں کو اپنے عہدے چھوڑنے پڑے۔
پاکستان کے لوگ بہادر لیڈر کو پسند کرتے ہیں اس لئے انہوں نے میاں صاحب کے سخت مؤقف کو پسند کیا۔ یہی وجہ تھی کہ نواز شریف 1997 کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ دوسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کے ڈھائی سال بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے طیارے کے اغوا کا ڈرامہ رچا کر ملک میں ایک بار پھر مارشل لا لگا دیا اور وزیراعظم کو پہلے اٹک جیل اور پھر لانڈھی جیل میں قید رکھا۔ عدالتوں پر دباؤ ڈال کو میاں صاحب کو دو بار عمر قید کی سزا دلوائی لیکن پھر عالمی دباؤ کے تحت سعودی عرب جبری جلا وطن کر دیا۔
2008 کے انتخابات میں میاں صاحب واپس آئے تو لاہور میں ان کا فقید المثال استقبال ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈال کر میاں صاحب کے کاغذات نامزدگی منظور نہ ہونے دیے لیکن بعد میں عدالت عظمیٰ نے انہیں تمام الزامات سے بری کیا۔
2013 کے انتخابات میں نواز شریف ایک بار پھر کامیاب ہوئے اور تیسری بار ملک کے وزیراعظم بنے۔ لیکن اس بار بھی اپنی پانچ سال کی مدت پوری نہ کر سکے اور عدالت عظمیٰ کے ایک انتہائی متنازعہ فیصلے کے تحت کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں۔
جتنی بار اسٹیبلشمنٹ میاں صاحب کو اقتدار سے علیحدہ کرتی ہے اتنی ہی بار عوام میاں صاحب کو پہلے سے زیادہ ووٹ دے کر اقتدار میں لے آتی ہے۔ آج میاں صاحب کوٹ لکھپت کے ایک عام قیدی ہیں مگر پاکستان کی سیاست میاں صاحب کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ ان کی مستقل مزاجی اور ہار نہ ماننے کی وجہ سے اقتدار سے علیحدہ کرنے والے مصالحت کیلئے آج ان کی منتیں کر رہے ہیں۔ اب بات صرف میاں صاحب کی شرائط کے تحت ہی آگے بڑھ سکتی ہے ورنہ دوسری ویڈیو کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑے گی۔