گلالئی اسماعیل بیرونِ ملک کیسے فرار ہوئیں؟

گلالئی اسماعیل بیرونِ ملک کیسے فرار ہوئیں؟
پاکستان میں مختلف مقدمات کا سامنا کرنے والی پشتون تحفظ موومنٹ کی حامی سماجی کارکن گلالئی اسماعیل کئی ماہ کی روپوشی کے بعد امریکہ میں منظرِ عام پر آئی ہیں۔

گلالئی اسماعیل رواں برس مئی کے اواخر سے غائب تھیں جب اسلام آباد میں ایک بچی سے جنسی زیادتی اور اس کے قتل کے واقعے پر احتجاج کرنے پر ان کے خلافگ انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

اس مقدمے میں گلالئی اسماعیل پر الزام عائد کیا گیا کہ اُنھوں نے ’اس واقعے کی آڑ میں لوگوں کو حکومت وقت اور فوج کے خلاف بھڑکایا ہے‘۔

انہوں نے ایک پیغام میں بتایا کہ وہ امریکا پہنچ گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:پشتون قوم کے ریاست مخالف جذبات ابھارنے پر گلالئی اسماعیل  کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج

 وائس آف امریکا کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ کہ ان کا نام 'ہٹ لسٹ' میں تھا اس لیے انہوں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

گلالئی اسماعیل نے روپوشی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ "میں نے سکیورٹی ایجنسیوں سے بچنے لیے پاکستان کے پانچ مختلف شہروں میں قیام کیا اور اپنی پناہ خفیہ رکھنے کے لیے فون اور انٹرنیٹ کا استعمال بھی بند کر دیا تھا۔"
ان کے بقول "والدین سے رابطہ کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں تھا۔ مگر میں نے لڑنا نہیں چھوڑا۔ میری آواز وقتی طور پر تو بند ہوئی۔ لیکن وہ ہمیشہ کے لیے میری آواز بند نہ کر سکے۔"

گلالئی اسماعیل کا کہنا تھا کہ روپوشی کے دوران وہ کسی ایک گھر میں ایک ہفتے سے زیادہ وقت نہ ٹھہریں، تاکہ ان کے میزبانوں کی زندگیوں کو کوئی خطرہ نہ ہو۔

گلالئی اسماعیل کہتی ہیں کہ اس سال کے شروع میں اُنہیں پشاور میں ایک خفیہ ادارے کے دفتر بلایا گیا تھا، جہاں ان کے بقول اُنہیں جان سے مارنے کی دھمکی والد کے سامنے دی گئی تھی۔

دوسری جانب ایک اہم سوال سے بھی ہے کہ وہ سیکیورٹی اداروں کی اتنی سخت نگرانی کے باوجود امریکا فرار ہونے میں کیسے کامیاب ہو گئیں۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے گلالئی کے فرار کی کہانی ان کے انٹرویو کے ساتھ شائع کی جس میں بتایا گیا ہے کہ وہ مئی میں زیر زمین گئیں اور تین ماہ چھپتے چھپاتے اگست میں امریکہ پہنچی ہیں۔ گلالئی نے بتایا کہ انہوں نے کسی ایئرپورٹ سے اڑان نہیں بھری مگر وہ ذریعہ نہیں بتائیں گی جس طرح امریکہ فرار ہوئیں کیونکہ اس طرح ان کا ساتھ دینے والوں کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔

امریکی اخبار کے مطابق گلالئی اسماعیل نے ایک نیا ریسرچ اور ایڈوکیسی گروپ ’وائس فار پیس اینڈ ڈیموکریسی‘ کے نام سے شروع کیا ہے اور وہ لاء سکول میں داخلہ لینے کا بھی سوچ رہی ہیں۔ تاہم انھیں اپنا ملک چھوڑنے کا بہت دکھ ہے۔

’گلالئی کا کہنا تھا کہ جب میں نکلی تھی تو مجھے پتہ تھا کہ یہ ایک ون وے ٹرپ ہے۔ اور جب میں (ملک) چھوڑ رہی تھی، تو میں نیچے جھکی اور مٹی کو چھوا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ میرا تعلق یہاں سے ہے، میرا ملک یہ ہے۔‘

انہوں نے کہا ’’جب امریکہ پہنچنے کے لیے میں سفر میں تھی، تو مجھے یقین نہیں تھا کہ میں محفوظ پہنچ پاؤں گی۔ اجنبی لوگوں میں بیٹھ کر یہی سوچ رہی تھی کہ مجھے اپنے والدین کو خدا حافظ کہنے کا موقع بھی نہ ملا۔ مجھے ان کی یاد آ رہی تھی۔ میرا دل خفا تھا۔ مگر پھر میں نے سوچا ابھی دل خفا کیوں کروں، جب یہ بھی نہیں معلوم کہ آیا میں کبھی باہر نکل پاؤں گی بھی یا نہیں۔”