پشتون قوم کے ریاست مخالف جذبات ابھارنے پر گلالئی اسماعیل  کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج

پاکستان مخالف تقاریر کرنے اور پشتونوں میں ملک مخالف جذبات ابھارنے کے الزامات کے تحت معروف سماجی کارکن گلالئی اسماعیل کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

یہ مقدمہ ایک مقامی شہری کی درخواست پر تھانہ شہزاد ٹائون میں درج کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق، گلالئی اسماعیل نے فرشتہ کے ریپ اور قتل کو بنیاد بنا کر حکومت پاکستان کے علاوہ پاک فوج کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کی ہے۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے، خاتون سماجی رضاکار نے  پشتون قوم کے دلوں میں ملک کی باقی اقوام کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش بھی کی ہے۔

یاد رہے کہ رواں برس مارچ میں ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسانی حقوق کی سرگرم کارکن گلالئی اسماعیل کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کا حکم جاری کیا تھا۔

تاہم لاہور ہائی کورٹ نے ہدایت کی تھی کہ آئی ایس آئی کی تجاویز کی روشنی میں وزارت داخلہ گلالئی اسماعیل کا پاسپورٹ ضبط کرنے کے علاوہ دیگر مناسب اقدامات کرے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ گلالئی اسماعیل کا نام آئی ایس آئی کی سفارش پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا گیا کیوں کہ وہ مبینہ طور پر بیرون ملک ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہی ہیں۔



گلالئی اسماعیل کے وکیل بابر ستار نے مقدمے کی سماعت کے دوران اعتراض کیا کہ کچھ پشتون بھائیوں کے خلاف درج ایف آئی آر میں ان کا نام شامل نہ ہونے کے باوجود برطانیہ سے واپسی پر ان کی موکلہ کو گرفتار کر لیا گیا۔

گزشتہ برس گلالئی اسماعیل فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کی جانب سے ضبط کیا گیا اپنا پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویزات لینے اسلام آباد آفس گئیں تو انہیں کچھ دیر کے لیے زیرحراست بھی رکھا گیا تھا۔

بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ گلالئی اسماعیل ایک غیرسرکاری تنظیم کی سربراہ ہیں اور خواتین کو بااختیار بنانے کے تناظر میں ان کے کام کو مقامی و عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔

درخواست میں یہ موقف بھی اختیار کیا گیا کہ انہیں گزشتہ برس 12 اکتوبر کو لندن سے واپسی پر پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت اور ریاست مخالف تقریریں کرنے پر گرفتار کر لیا گیا تاہم وہ ایک محب وطن پاکستانی ہیں اور انہوں نے کبھی کسی ریاست مخالف سرگرمی میں حصہ نہیں لیا۔

گلالئی اسماعیل نے موقف اختیار کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کا پاسپورٹ بھی ضبط کر لیا گیا جب کہ انہیں اپنا دفاع کرنے کا موقع بھی فراہم نہیں کیا گیا۔ انہوں نے عدالت سے ای سی ایل سے نام نکالے جانے اور پاسپورٹ واپس دلانے کے لیے ہدایات جاری کرنے کی استدعا بھی کی۔



اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عمر فاروق نے کہا، جس متنازع میمورنڈم کے تحت گلالئی اسماعیل کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا ہے، اسے خارج کیا جاتا ہے اور متعلقہ فریقین کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ درخواست گزار کا پاسپورٹ انہیں واپس کریں۔

تاہم عدالت نے یہ ضرور کہا تھا کہ آئی ایس آئی کی جانب سے درخواست گزار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی تجویز کے باعث ضرورت اس امر کی ہے کہ وزارت داخلہ کے حکام اس معاملے پر ایکشن لینے کے لیے مناسب کارروائی کرنے میں آزاد ہیں اور قانون کے تحت ان کا پاسپورٹ بھی ضبط کر سکتے ہیں۔