یک صفحہ حکومت کے تین سال مکمل ہو چکے ہیں۔ کسی وعدہ کی تعبیر نہیں ہوئی۔ نہ 50 لاکھ گھر نصیب ہوئے اور نہ ہی 1 کڑوڑ نوکریاں ملیں۔ صرف ’گھبرانا نہیں ہے’ کا دلاسا ملا جس میں بھی اب جان ختم ہو چکی ہے۔
ویسے تو پاکستان میں شازونادر ہی ایسا ہوا کہ کسی حکومت نے اپنے پانچ سال مکمل کیے ہوں۔ وجوہات سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ پانچ سالہ حکومت کا آخری سال انتخابی مہم چلانے کا سال ہوتا ہے۔ اس سال کوئی نمایاں کارکردگی نہیں دکھائی جاتی۔ بلکہ اگلی حکومت جمانے کی تیاریاں کی جاتی ہیں۔ یہ سال جلسے جلوس اور نعرہ بازی کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ اب اس حکومت کے پاس کارکردگی کیلئے صرف ایک اور سال بچا ہے۔ عمران خان انتخابی سال آنے سے پہلے ہی اگلی حکومت بنانے کی تیاریوں میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔
بڑھتی مہنگائی، بدامنی اور عدم کارکردگی کی وجہ سےعمران خان کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔ اگر شفاف انتخاب ہوتا ہے تو خان صاحب کیلئے دوبارہ اعوان میں اکثریت حاصل کرنا ممکن نہیں دکھائی دیتا۔ شاید وہ خود بھی اس بات سے آشنا ہو چکے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے اب بیرون ملک پاکستانیوں سے امید باندھ رکھی ہے۔ تحریک انصاف وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی سیاسی مہم کا حصہ بنایا جس کی بدولت عمران خان آج بیرون ملک پاکستانیوں میں کافی مقبول ہیں۔ لیکن اس مقبولیت کی بڑی وجہ بیرون ملک پاکستانیوں کی اندرون حالات سے لاعلمی ہے۔ یہ نادانستگی خان صاحب کے لئے گراں بہا ثابت ہو سکتی ہے۔
موجودہ تاریخ میں 88 لاکھ سے زائد پاکستانی ملک سے باہر رہتے ہیں۔ یہ ووٹروں کی ایک خاصی بڑی تعداد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خان صاحب الیکٹرونک ووٹنگ مشین یا ای وی ایم کو جلد از جلد متعارف اور نافذ کروانا چاہتے ہیں تاکہ غیر ملکی شہریوں کے ووٹ لئے جا سکیں۔ لیکن الیکشن کمیشن کے اعتراضات ان کے منصوبہ کی تکمیل کی راہ میں آڑ ہیں۔ جس پر ان کے حلقہ احباب میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کے ایک وزیر نے نہ صرف الیکشن کمیشن پر رشوت خوری کے الزام لگائے بلکہ اس ادارے کو آگ لگانے کی خواہش بھی ظاہر کی۔ چیف الیکشن کمشنر نے ابھی تک جوابی کاروائی سے اجتناب کیا ہے۔ شاید چند دوسرے اداروں کی نسبت ان کے ہاں تنقید کی گنجائش موجود ہے۔ ورنہ ان وزیر صاحب کی اب تک کوئی ویڈیو یا بیرون ملک کوئی جائیداد نکل آئی ہوتی۔
الیکشن کمیشن کے ایک اعتراض کے مطابق الیکٹرونک ووٹنگ مشین سے بآسانی جعلسازی کی جا سکتی ہے۔ اگر ای وی ایم اپنی موجودہ شکل میں نافذ کر دی جاتی ہے تو اس سے 40 کے لگ بھگ سیٹوں کو جیتا جا سکتا ہے۔ جن سے انتخابات میں پاسا الٹایا جا سکتا ہے۔
صرف الیکشن کمیشن ہی ان کے لئے رکاوٹ نہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 2023 میں چیف جسٹس کا عہدہ سمبھالیں گے۔ قاضی صاحب ایک سخت قانون دان ہیں۔ کسی بھی غیر آئینی اقدام کو پسند نہیں کرتے۔ اس حوالے سے انکے کئی بیان آ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں کو انکی بطور چیف جسٹس تقرری کھٹکتی ہے۔ ان کی اہلیہ پر جھوٹے مقدمات دائر کئے گئے اور انکو تعیناتی سے پہلے گھر بھیجنے کی ناکام اور بزدلانہ کوشش کی گئی۔ اگر قاضی صاحب اپنے نڈر انداز سے چلتے ہوئے 2023 میں چیف جسٹس بن جاتے ہیں تو ممکنہ طور پر ای وی ایم کو ایک جھٹکے میں غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر دیں گے۔ اسی لئے کوشش کی جا رہی ہے کہ 2023 سے پہلے ہی ای وی ایم کو نصب کرا لیا جائے اور پھر شاید قاضی صاحب کے عدلیہ کے سربراہ ہونے سے پہلے انتخاب کروا لئے جائیں۔ کیونکہ قاضی صاحب کی سرپرستی میں کوئی گڑبڑ نہیں کی جا سکتی۔
ممکن ہے کہ 2022 میں حکومت ایک صفحہ نہ رہے کیونکہ 2019 کے جس اقدام کے تحت حکومت ایک صفحہ تھی وہ اب اختتام پذیر ہے۔ 2022 کے بعد ایک اہم رفاقت اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ اس رفاقت میں دوبارہ توسیع نہیں ہو سکتی۔ شاید اسی لئے عمران خان آج کل انتخابی مہم کے حوالے سے خوب فعال نظر آتے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ای وی ایم کو کار آمد بنانا اس وقت حاکم وقت کا نصب العین ہے۔ کیونکہ اب ای وی ایم سے ہی کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن عدلیہ، حزبِ اختلاف، سول سوسائٹی اور میڈیا کی ہمخیالی موجودہ ہائبرڈ رجیم کے لئے ایک للکار رہے گی۔
نعمان احمد بھٹی ماہرِ سیاست و تواریخ ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پرnaumanbhatti_1@ کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔