پاکستان کی تقدیر مشکوک وفاداریاں رکھنے والوں کے ہاتھ میں ہے

وہ افراد جنہوں نے مراعات انگریزوں سے لیں، حلف ان کی وفاداری کے اٹھائے اور بعد از تقسیم پاکستان میں حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹتے رہے، آج انہی کی اولادیں پارلیمنٹ میں عوام کے مستقبل کا فیصلہ کر رہی ہیں تو میں اس کو آسکر وننگ مذاق کے سوا کچھ نہیں سمجھوں گا۔

پاکستان کی تقدیر مشکوک وفاداریاں رکھنے والوں کے ہاتھ میں ہے

میں ایک بات پر یقین رکھتا ہوں کہ کوئی بھی جذباتی ڈاکٹرائن اور زبردستی پڑھایا ہوا پاٹ انسان تب تک ہی سینے سے لگا کر رکھتا ہے جب تک اس کا پیٹ بڑھا ہوا ہو اور جیب بھاری ہو۔ یہ ممکن نہیں کہ خالی جیب اور بھوکے پیٹ کے ساتھ کوئی حب الوطنی کا دعوے دار ہو اور اس کا پرچار بھی کرے۔ دنیا کے کئی مشہور فلاسفر اس پر مختلف الفاظ میں آرا دے چکے ہیں۔ مثال کے طور پر مشہور انقلابی لیڈر اور فلاسفر چی گویرا نے کچھ ایسا کہا تھا کہ 'اگر ریاست تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریات فراہم نہیں کرے گی تو لوگوں کی ریاست سے محبت مشکوک ہو جائے گی'۔ اسی طرح سعادت حسن منٹو نے کہا تھا کہ 'خالی پیٹ کا مذہب روٹی ہوتا ہے'۔

خیر یہ تو کافی معمولی باتیں معلوم ہوتی ہیں مگر اب مجھے ایک بات کھائے جا رہی ہے کہ اگر کسی فرد واحد کیلئے مذہب اور ریاست سے بڑھ کر روٹی ہے تو پاکستان جیسی ریاست جو خود روٹی کیلئے دنیا بھر میں قرضے کی بھیک مانگ رہی ہے اس کا مذہب، عقیدہ اور حب الوطنی کیا ہو گی؟

یہ ایک سوال ہے جو پریشان کر رہا ہے! کوئی بھی صاحب علم جذباتی ہو کر فتویٰ لگانے اور غدار کہنے کے بجائے مدلل جواب دے دے تو میں اس کا احسان مند ہوں گا۔ میرا قطعی مقصد کسی شخص یا ادارے سمیت ریاست کی دل آزاری نہیں ہے مگر بھوک، افلاس اور حالات کی چوٹ ایسی ہے کہ دماغ پر اب نورجہاں صاحبہ کے گائے حب الوطنی والے ترانے بھی اثر نہیں کر رہے۔

اب تمام دیگر کی طرح میں آپ کو پٹرول، دودھ، ڈالر سمیت دیگر چیزوں کی قیمتیں بتا کر کوئی تجزیہ نہیں دوں گا کیونکہ حالات کے مارے اس وقت سب ایک جیسا ہی محسوس کر رہے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ ملک میں حکومت بھی نگران ہے جس سے کیا ہی امید کریں اور حکومت کو بھی عوام سے کیا لینا دینا ہو سکتا ہے؟ وہ کون سا کسی جماعت کے نمائندے ہیں اور ان کو دوبارہ کہاں حلقوں کی سیاست کرنی اور ووٹ مانگنا ہے! وہ پٹرول 500 کا بھی کر دیں تو ان کو کسی رد عمل کی پروا نہیں۔

بخدا میں حلف اٹھا کر یہ بات لکھ رہا ہوں کہ گذشتہ کچھ ہفتوں میں کئی حلقوں میں جہاں بیٹھا تو نوجوانوں سے لے کر بڑی عمر کے افراد یہ بات کرتے دکھائی دیے کہ کاش چین ہی ہم پر حاکم ہو جائے، کاش بھارت کے ساتھ ہی پھر ملاپ ہو جائے، کاش 47 میں تقسیم نا ہوئی ہوتی۔

یہ الفاظ پاکستانیوں کے ہیں جو عام چوک چوراہوں پر کہے جا رہے ہیں اور اس کی وجوہات سارا ملک جانتا ہے۔ موجودہ حالات اور تاریخ کے کچھ اقتباسات پڑھ کر اس وقت ملک پاکستان میں لوگوں کی جو رائے پائی جا رہی ہے اس کی بنیاد پر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ 14 اگست 1947 کو تقسیم ضرور ہوئی تھی مگر بدقسمتی سے آزادی نہیں مل سکی، ہمیں تقسیم اور آزادی کے درمیان فرق کو تلاش کرنا پڑے گا۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی عمارت بنانے سے قبل آپ بنیاد میں اینٹ کو ٹیڑھا لگا دیں اور بعد میں شکایت کریں کہ عمارت سیدھی کیوں نہیں ہے۔

ہمیں اپنی بنیادی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ افراد جنہوں نے مراعات انگریزوں سے لیں، جاگیر انگریزوں سے لی، حلف ان کی وفاداری کے اٹھائے اور بعد از تقسیم پاکستان میں حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹتے رہے، آج ان کی اولادیں پارلیمنٹ میں ہمارے مستقبل کا فیصلہ یہ کہہ کر کریں کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور جمہور کی منشا پر یہ ایوان کام کرتا ہے تو میں اس کو آسکر وننگ مذاق کے سوا کچھ نہیں سمجھوں گا۔

عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@