ملک کے تین بڑوں کی ملاقات، ایوان صدر میں کیا ہوا؟ اندرونی کہانی سامنے آ گئی

ملک کے تین بڑوں کی ملاقات، ایوان صدر میں کیا ہوا؟ اندرونی کہانی سامنے آ گئی
20 اپریل کو ایوان صدر میں ہونے والی ایک اہم میٹنگ میں ملک کو فوری درپیش ایک نہایت اہم مسئلے پر اعلیٰ ترین سطح پر غور کیا گیا، جس کے نتیجے میں اگلے چند روز میں رمضان المبارک اور مساجد کے حوالے سے اہم اقدام کا اعلان خارج از امکان نہیں۔ ذرائع کے مطابق کرونا وائرس سے قومی سطح پر ایمرجنسی صورتحال پیدا ہوجانے کے بعد اس حوالے سے یہ اہم ترین بیٹھک تھی، جس میں صرف 3 اعلیٰ شخصیات، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید شریک تھے۔

ذرائع کے مطابق اعلیٰ سطحی میٹنگ میں اس اہم نکتے پر غور و فکر کیا گیا کہ ملک میں کرونا وائرس کی مہلک وبا کو پھیلنے سے روکنے کی خاطر لاک ڈاؤن پر عملدرآمد میں ناکامی کے حوالے سے کیا خطرناک صورتحال پیش آسکتی ہے اور یہ کہ آیا علمائے کرام مذہبی جذبات کی رو میں کسی نادیدہ ہاتھوں میں استعمال تو نہیں ہو رہے۔ اس میٹنگ میں ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کا نہایت سنجیدگی سے جائزہ لیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں کرونا وائرس کا مرکز جنوبی ایشیا میں منتقل ہونے جا رہا ہے اور خطے کے 2 ممالک، بھارت اور پاکستان سب سے زیادہ اس وبا کی زد میں آئیں گے، جن کی معیشتیں بری طرح متاثر ہونے کا امکان ہے۔

اجلاس میں ذرائع کے مطابق اس نکتے پر بطور خاص غور کیا گیا کہ علمائے کرام کا رویہ ورلڈ بینک کے اندازوں کو حقیقت میں بدل سکتا ہے۔ آخر کون مولویوں کو استعمال کر کے ورلڈ بینک کی رپورٹ میں ظاہر کئے گئے خدشات سچ ثابت کر دینا چاہتا ہے جبکہ مڈل ایسٹ میں لاک ڈاؤن پر مؤثر عملدرآمد میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آرہی، وہاں ایسی کسی صورتحال کا سامنا نہیں، کیا ہماری مساجد مذہبی حوالے سے خانہ کعبہ اور حرم شریف سے بھی زیادہ مقدس ہیں جن میں اجتماعات پر پابندی پر عمل کروانے میں مشکلات کھڑی کی جارہی ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اہم میٹنگ میں اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا کہ صدر مملکت کی زیر صدارت علمائے کرام کے ساتھ حالیہ گرینڈ اجلاس میں جو طے پایا ہے، اس پر عملدرآمد ممکن دکھائی نہیں دیتا اور اس کے نتیجے میں عملاً ایک خطرناک صورتحال جنم لے سکتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ رمضان المبارک میں مغرب کی نماز مساجد میں ادا کی جائے اور افطاری وہاں نہیں کی جائے گی، باجماعت نماز اور افطاری کے حوالے سے لامحالہ مجمع اور ہجوم دیکھنے میں آئے گا اور کرونا کے پھیلاؤ کے راستے کھلیں گے۔

ذرائع کے مطابق بعض اہم حساس ایجنسیاں پہلے ہی اس بات کا کھوج لگانے اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی بابت متحرک ہو چکی ہیں کہ ورلڈ بینک کی رپورٹ میں آنے والے دنوں میں پاکستان کے حوالے سے جن خوفناک حالات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے، اسے حقیقت کا روپ دلانے کے لئے علمائے کرام کو مقامی سطح پر، یعنی ملک کے اندر کون سا خفیہ ہاتھ یا ایجنسی استعمال کر رہی ہے۔ کہیں یہ وہی عناصر تو نہیں جن کی طرف وزیراعظم نے قوم سے اپنے حالیہ خطاب میں یہ کہتے ہوئے اشارہ کیا تھا کہ کچھ لوگ اس بات پر پریشان لگتے ہیں کہ دوسرے ملکوں کی نسبت پاکستان میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ کم ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حساس ادارے ایسے سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں کہ اچانک ہمارے مذہبی حلقے اور علمائے کرام بالخصوص مفتی منیب الرحمن اور مولانا تقی عثمانی جیسی معتبر مذہبی شخصیات بھی اپنی سادگی یا انجانے میں کس وجہ سے جذبات کی رو میں بہتے دکھائی دیتے ہیں جو آج ایسے اعتراضات تک اٹھا رہے ہیں کہ اجلاس میں پہلے 3 فٹ فاصلہ طے ہوا تھا تو اب 6 فٹ کی پابندی کیوں لاگو کی جا رہی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک اور قوم کو کرونا کے پھیلاؤ سے بچانے اور اس مہلک وبا کے ممکنہ پھیلاؤ کو ہر صورت روکتے ہوئے ملکی معیشت کو مزید تباہی سے محفوظ رکھنے کی غرض سے حکومت کی جانب سے رمضان المبارک کے دوران مساجد بارے اعلان کردہ انتظامات اور پابندیاں مزید سخت کر دینے کا اقدام خارج از امکان نہیں۔