سینئر سیاستدان میر حاصل بزنجو کے انتقال پر سینیٹ میں تعزیتی ریفرنس منعقد ہوا جس میں اراکین سینیٹ نے جمہوریت کے علمبردار سیاستدان کو شاندار انداز میں خراج عقیدت پیش کیا۔
سینئر سیاستدان حاصل بزنجو بزنجو پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے اور گذشتہ روز کراچی میں انتقال کر گئے تھے۔
جمعہ کو سینیٹ اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت شروع ہوا تو سینئر سیاستدان حاصل بزنجو کے انتقال کے باعث اجلاس کا تمام ایجنڈا مؤخر کردیا گیا اور انہیں بھرپور خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے حاصل بزنجو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بالخصوص بلوچستان عظیم لیڈر سے محروم ہوگیا اور آج کا اجلاس تعزیتی اجلاس ہوگا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ یقیناً آج ہم اپنے ایک عظیم رہنما سے محروم ہو گئے کیونکہ حاصل بزنجو کی سیاست کی ابتدا اس وقت سے تھی جب لوگوں کو ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہر فرد کو ووٹ کا حق دلانے کی کوشش میں حاصل بزنجو شامل رہے اور وہ آزادی کی تحریکوں اور امن کے داعی تھے۔
پرویز رشید نے کہا کہ جن اصولوں کے لیے میر حاصل بزنجو نے جدوجہد کی انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، چیئرمین سینٹ کے انتخابات میں میری صفوں میں سے 14 لوگوں نے ان کے ساتھ زیادتی کی تھی اور اس پر میں آج اپنے مرحوم دوست سے معافی چاہتا ہوں۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میر حاصل بزنجو کی موت سے ملک کا بڑا نقصان ہوا ہے اور ان کو ہم جتنا خراج عقیدت پیش کریں وہ کم ہو گا۔ میر حاصل بزنجو جو فیصلہ کرتے تھے وہ اس پر چلتے تھے اور سیاسی جمہوریت کا جو سفر میر حاصل بزنجو نے طے کیا اس میں ہم اکثر ان کے ساتھ ہوتے تھے۔
شیری رحمٰن نے مزید کہا کہ دل سے جب سیاست نکلتی ہے وہ سب کو نظر آتی ہے اور میر حاصل بزنجو نے مجھ سمیت تمام خواتین کو حوصلہ دیا، میں نے میر حاصل بزنجو سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
سینیٹر مولانا عطاالرحمن نے بھی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میر حاصل بزنجو کے والد کا بھی سیاست میں بڑا نام تھا، میر غوث بزنجو جس طرح اپنی قوم اور ملک کے ساتھ مخلص تھے، میر حاصل بزنجو نے اپنے والد کے حقیقی جانشین ہونے کا حق ادا کیا۔ میر حاصل بزنجو نے اپنے والد، خاندان اور جماعت کے نام کو جلا بخشی، وہ ایک عظیم انسان تھے، میں دعا گو ہوں کہ میر حاصل بزنجو کی اولاد بھی اپنے والد کی طرح آگے بڑھے اور ان کا نام روشن کرے۔
سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ حاصل بزنجو نے مارشل لا کے خلاف جدوجہد کی، وہ روشن فکر رہنما تھے اور غیرجمہوری قوتوں کی سیاست اور پارلیمنٹ میں مداخلت کے سخت مخالف تھے۔ سینیٹ الیکشن میں اپوزیشن ارکان نے بے وفائی کی، حاصل بزنجو کو معلوم تھا کہ کس کس نے انہیں ووٹ نہیں دیا لیکن وہ سب سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے بھی میر حاصل بزنجو جدوجہد کر رہے تھے لیکن حیات بلوچ کی موت کا صدمہ حاصل بزنجو کے لیے کینسر سے زیادہ مضر ثابت ہوئی۔
دوران اجلاس مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما راجہ ظفرالحق نے سینیٹر حاصل بزنجو کے لیے سینیٹ میں تعزیتی قرارداد پیش کی جسے منظور کر لیا گیا۔
سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ حاصل بزنجو کو جب چئیرمین سینیٹ کے لیے نامزد کیا گیا تو چند افراد نے انہیں رات کی تاریکی میں چھوڑا۔ بزنجو جیسے لبرل پاکستان کی ضرورت ہیں اور ہم ان کا پرچم اٹھا کر چلیں گے۔
دوران اجلاس پیر صابر شاہ نے کہا کہ آمریت کے خلاف جدوجہد میں بڑی بڑی قدآور شخصیات سمجھوتہ کر لیتی تھیں، آمریت نے جب شب خون مارنے کی کوشش کی ان کو ہم جیسے لوگوں نے کندھے مہیا کیے لیکن میر حاصل بزنجو نے استقامت کے ساتھ آمریت کے خلاف جمہوریت کو سربلند رکھا۔ حاصل بزنجو بائیں بازو کے تھے لیکن میں کہتا ہوں کہ وہ دائیں بازو کے تھے، ان کے دل میں دائیں اور بائیں بازو دونوں کے لیے محبت تھی۔
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ایک ممبر کا تعزیتی ریفرنس ہے اور قائد ایوان سینیٹ میں موجود نہیں۔ اس پر سینیٹر ساجد طوری نے بتایا کہ قائد ایوان چھٹی پر ہیں اور کسی کی عیادت کے لیے لاہور گئے ہوئے ہیں۔ سینیٹ کا اجلاس پیر شام 5 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔