اسلام کے نام پر حاصل کی گئی مملکت خداد میں عورتوں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، یا یوں کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے واقعات سامنے آ کر رجسٹر ہونے کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ گویا یہ کوئی آج کی خرابی نہیں بلکہ عرصہ دراز سے چلی آ رہی قبیح حرکت ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ مردوں کی جنسی ہراسانی کا شکار صرف جوان لڑکیاں اور عورتیں ہی نہیں بلکہ کم عمر بچیاں اور بچے بھی بنتے ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ سب آخر کیوں ہوتا ہے؟
عورتوں، بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے واقعات کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:
1۔ قانون کی عملداری کا نہ ہونا
آئے روز جنسی ہراسانی کے واقعات سامنے آتے ہیں اور شاید سامنے آنے والے واقعات سے کہیں زیادہ واقعات وہ ہیں جو سامنے ہی نہیں آتے۔ کبھی سوچا ہے کہ ان واقعات میں ملوث لوگوں کو سزا ملنے کی کتنی خبریں آپ کو سننے کو ملتی ہیں؟
ریاست کا کام شہری کی جسمانی، مالی حفاظت کو یقینی بنانا ہوتا ہے اور کسی کے جرم کرنے پر اسے پکڑ کر قرار واقعی سزا دلوانا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری ریاست اپنے شہریوں کے اس بنیادی حق کے تحفظ میں بالکل ناکام ہو چکی ہے اور نتیجتاً جنسی درندوں کے پکڑے جانے اور سزا کا کوئی خوف نہیں رہا۔ جب کوئی خوف ہی نہیں تو جب جس کا جی چاہتا ہے وہ اپنی بے لگام جنسی خواہش کو زبردستی پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان واقعات کو روکنے میں سب سے پہلا اور بڑا کردار ریاست کو ادا کرنا پڑے گا وگرنہ جو مرضی کر لیں، جتنی چاہیں باتیں کر لیں، کچھ سدھرنے والا نہیں۔
2۔ جنسی مایوسی
جنسی ہراسانی میں ملوث افراد ایک طرح کے نفسیاتی عارضے کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ انہیں عورت کو دیکھ کر خیال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے پاس عورت کے ذریعے اپنی جنسی خواہش پورا کرنے کا یہی واحد اور آخری موقع ہاتھ لگا ہے تو اس موقع سے جتنا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، اٹھا لیا جائے، چاہے ہاتھ لگانے کی حد تک ہی موقع ملے یا زیادتی کرنے کا، اور ہر بار انہیں واحد اور آخری موقع ہی لگتا ہے۔
3۔ جنسی تعلیم کی کمی
مملکتِ خداد میں جنسی تعلیم کو بےحیائی کی بات سمجھا جاتا ہے اور جنسیات کو خود بخود سمجھنے، سیکھنے والا عمل سمجھا جاتا ہے۔ سیکس پر بات کرنے کو واہیات اور گناہ والا کام سمجھا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ایک فطری عمل پراسراریت کے پردے کے پیچھے چھپ کر شدید کشش والی اور لاحاصل سی شے لگنے لگ جاتا ہے۔ حتیٰ کہ چھوٹی عمر کے بچوں، بچیوں کو علم نہیں ہوتا کہ good touch اور bad touch میں کیا فرق ہوتا ہے اور کیا ردِ عمل دینا ہوتا ہے۔ سیکس کے محفوظ اور قانونی طریقوں سے لاعلمی اور بےپروائی کا نتیجہ جنسی ہراسانی کی صورت میں نکلتا ہے۔
4۔ آداب/تربیت کی کمی
ہمارا معاشرہ جہاں بہت سارے معاملات میں تنزلی کا شکار ہے، وہاں جنس (gender) کی بنیاد پر آداب کے حوالے سے بھی بدترین صورتحال کا سامنا ہے۔ عام طور پر بچپن سے ہی لڑکے کو لڑکی پر فوقیت دی جاتی ہے اور لڑکی کو حفاظت کے نام پر ایک خول میں بند کر دیا جاتا ہے لیکن لڑکی کو عزت کیسے دینی ہے، اسے کمزور اور استعمال کی چیز نہیں سمجھنا ہے، جیسی تربیت لڑکوں کو نہیں دی جاتی۔ بہت زیادہ بھی ہو جائے تو گھر کی لڑکیوں کی عزت کرنے کی تلقین کر دی جاتی ہے لیکن گھر کے باہر کی عورتوں کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے اس پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا۔ کئی جگہ تو عورت کے ساتھ زبردستی یا بدتمیزی کو مردانگی سمجھا جاتا ہے۔ اس رویے کو بدلنا ہوگا اور عورت کو بطور معاشرے کا برابر کا فرد سمجھ کر عزت تکریم دینی ہوگی وگرنہ نہ اپنی عورتیں محفوظ رہ پائیں گی، نہ دوسروں کی۔
5۔ عورت کو شے سمجھنا
ہمارے معاشرے میں عورت کو اس چیز کی مانند سمجھا جاتا ہے جس کا کام گھر سنبھالنا، شوہر کی خدمت میں ہلکان ہوتے رہنا اور سیکس کے لئے ہمہ وقت حاضر رہنا ہوتا ہے۔ کبھی عورت کو بغیر ریپر کے ٹافی سے تشبیہ دی جاتی ہے تو کبھی بغیر چھلکے کے کیلے سے۔ عورت کو معاشرے میں برابری کا درجہ دیے بغیر معاشرے کی گراوٹ کو روکا نہیں جا سکتا۔ عورت کو ایک شے سمجھنے کے بجائے معاشی، تعلیمی آزادی دینی پڑے گی، برابر کے حقوق دینے پڑیں گے، ان کے آگے مردانہ معاشرے کی قائم رکاوٹوں کو ہٹانا پڑے گا، اس کے بغیر عورت اور معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتے۔
یہ کچھ چیدہ چیدہ نکات ذہن میں آئے تو لکھ ڈالے۔ آپ ان میں اضافہ بھی کر سکتے ہیں، چاہیں تو ان سے اتفاق بھی کر سکتے ہیں اور اختلاف بھی لیکن اختلاف میں عورتوں کو نیچا دکھانے کی روش ترک کر کدیجئے۔ اختلاف کیجئے مگر عورت کے احترام کے ساتھ۔