مذہب کے نام پر تقسیم ہونے والے خطے کا حشر آج کے برصغیر جیسا ہی ہونا تھا

جڑانوالہ دہائیوں تک سکھوں، ہندوؤں، مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر کئی اقوام کا مسکن رہا۔ برصغیر کی تقسیم اور سکھوں اور ہندوؤں کے انخلا کے بعد بھی جڑانوالہ بائیں بازو کے نظریات سے جڑے سرگرم کسانوں کا مضبوط مرکز رہا جو بڑے پیمانے پر سیکولر سماجی شعور کے حامل تھے۔ گرجا گھروں کو نذر آتش کیے جانے کا تصور بھی محال تھا۔

مذہب کے نام پر تقسیم ہونے والے خطے کا حشر آج کے برصغیر جیسا ہی ہونا تھا

بھگت سنگھ نے کہا تھا؛ 'اگر یہ خطہ مذہب کے نام پر تقسیم ہوا تو نفرت کی اس آگ کو بجھاتے بجھاتے آنے والی نسلوں کی کمر ٹوٹ جائے گی'۔

اس گھڑی میں ایسا کیا کہا جا سکتا ہے جو پہلے نہ کہا گیا ہو؟ پاک سرزمین پر پنجاب کے عیسائیوں نے اس قدر ہولناکیاں جھیلی ہیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ بدھ کے روز جڑانوالہ میں پرتشدد ہجوم نے جو کچھ کیا اس کے جواب میں محض مذمت کافی نہیں ہے۔ اس واقعہ پر ماضی کے اور موجودہ سرکاری حکام نے جو مذمتیں جاری کی ہیں وہ نری فضولیات ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک وہ پھرتیاں ہیں جو بہت دیر میں دکھائی گئیں اور کہا گیا کہ سرکاری اداروں نے مذکورہ واقعے میں ملوث سینکڑوں 'مجرم' پکڑ لیے ہیں اور جن لوگوں کی جان کو ابھی بھی خطرہ ہے، انہیں تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ ہر وہ شخص جس نے اس واقعے سے متعلق مںظرعام پر آنے والی ویڈیوز دیکھی ہیں، گواہی دے سکتا ہے کہ اس تمام وقت کے دوران جب ہجوم پرتشدد کارروائیاں کرتا رہا، قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی بنے سب کچھ دیکھتے رہے۔

یہ واقعہ کہیں بھی ہو سکتا تھا اور جہاں بھی ہوتا اتنا ہی تکلیف دہ ہوتا۔ مگر اس کا جڑانوالہ میں پیش آنا حالات کی ستم ظریفی ہے۔ یہ وہی جڑانوالہ ہے جو بیسویں صدی کے اوائل میں بھارتی قوم پرستی کا مرکز تھا۔ یہی وہ جڑانوالہ ہے جس نے بھگت سنگھ کو جنم دیا تھا۔ برصغیر کی جدید تاریخ، خصوصاً برطانوی نوآبادیاتی دور کا کوئی مطالعہ مکمل ہی نہیں ہو سکتا جب تک مغربی پنجاب کی نہری آبادیوں میں بسنے والے سکھ کسانوں کے کردار کا ذکر اس میں شامل نہیں کیا جاتا۔ یہ سکھ کسان ہی تھے جنہوں نے خاص طور پر پنجابیوں اور ہندوستانیوں کی ایک پوری نسل کو حریت پسند بنایا۔ انہوں نے نا صرف برصغیر میں بلکہ بیرون ملک مقیم سکھوں نے تو عالمی سطح پر بھی لوگوں کو متحرک کیا۔ ان کسانوں نے غدر پارٹی جیسی تنظیمیں بنائیں اور ہندوستانی تحریک آزادی کے لئے بین الاقوامی حمایت حاصل کی۔

بھگت سنگھ جیسی شخصیات کے آزادی حاصل کرنے کے طریقوں، خاص طور پر ان کی جانب سے انقلابی تشدد کی حمایت جیسے اقدامات پر بھلے تنقید کی جا سکتی ہے مگر ایک طرف جہاں جناح، اقبال، گاندھی اور نہرو کو قومی تواریخ میں قابل فخر مقام دیا جاتا ہے، وہیں بھگت سنگھ، سبھاش چندر بوس اور ان جیسی بہت ساری شخصیات کا محض سرسری تذکرہ کیا جاتا ہے مگر یہ اس سے زیادہ کی مستحق ہیں۔

جڑانوالہ واقعہ ان بہت ساری مسیحی خواتین، بچوں اور مردوں کے لئے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ الم ناک ہے جنہیں نفرت سے بھرے ایسے پرتشدد ہجوم کا سامنا کرنا پڑا جو ان کی عبادت گاہوں پر حملہ آور ہوا۔ ان میں سے بیش تر نے کھیتوں اور جھاڑیوں میں چھپ کر اپنی جانیں بچائیں۔ لیکن اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ برصغیر کے کروڑوں انسان 76 سالوں سے اسی قسم کے صدمے سے گزر رہے ہیں۔

جڑانوالہ دہائیوں تک سکھوں، ہندوؤں، مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر کئی اقوام کا مسکن رہا۔ برصغیر کی تقسیم اور سکھوں اور ہندوؤں کے انخلا کے بعد بھی جڑانوالہ بائیں بازو کے نظریات سے جڑے سرگرم کسانوں کا مضبوط مرکز رہا جو بڑے پیمانے پر سیکولر سماجی شعور کے حامل تھے۔ گرجا گھروں کو نذر آتش کیے جانے کا تصور بھی محال تھا۔

جنرل ضیاالحق کا دور حکومت جیسی سوچ کا نمائندہ تھا اور جس طرح اس کے دوران نفرت کے ایسے بیج بوئے گئے جنہوں نے پاکستان کے متنوع نسلی اور قومی سماج میں تباہی مچا دی، ہم سب اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔ تاہم 40 سال ایک لمبا عرصہ ہے اور اصل سوال یہ ہے کہ؛ ہم ایسے ماہر منصوبہ سازوں کو کب گرفت میں لائیں گے جو تحریک طالبان پاکستان، تحریک لبیک اور ان جیسے دیگر بہت سے مذہبی عسکریت پسند گروہوں کی سرپرستی جاری رکھے ہوئے ہیں؟

مسیحی برادری اور سنی اسلام کے دائرے سے باہر دیگر کمیونٹیز کو جن مصائب کا سامنا ہے اس کی بنیادی وجہ ریاست پاکستان کی جانب سے اس غیر سرکاری بیانیے کو مسترد نہ کرنا ہے جس میں قومیت کا مطلب مذہب قرار دیا جا چکا ہے۔ مگر یہ تباہی صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے۔ بھارت میں نریندر مودی لگ بھگ ایک عشرے سے اقتدار میں ہیں اور انہوں نے بھارتی سیاست کی نسبتاً سیکولر بنیادوں کو اس انداز میں مٹا دیا ہے کہ ایک نسل پہلے تک اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جڑانوالہ میں جس قسم کے مناظر سامنے آئے، بھارت میں یہ روزانہ کا معمول بن چکے ہیں۔ وہاں ایسے واقعات خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ پیش آتے ہیں مگر مسلمانوں تک ہی محدود نہیں ہیں۔

میں دونوں ملکوں کی صورت حال کو ایک جیسا ثابت کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ہماری نوجوان آبادی ان سیاسی نظریات اور اصولوں کے ساتھ نہیں جڑتی جنہوں نے بھگت سنگھ جیسی تاریخی شخصیات کو متحرک کیا تھا، تو نفرت پر مبنی مذہبی سیاست کی یہ ترویج بالآخر ہم سب کو نگل جائے گی۔

اس طویل داستان کا لُب لباب بس یہی ہے۔ پاکستان کی 24 کروڑ آبادی کی اوسط عمر 23 سال ہے۔ جڑانوالہ جیسے واقعات کے ماسٹر مائنڈ جن میں وہ مذہبی رہنما بھی شامل ہیں جو لوگوں کو اشتعال دلاتے اور توڑ پھوڑ پر اکساتے ہیں اور وہ طاقتور لوگ بھی جو خفیہ کمروں میں بیٹھ کر اگلے نفرت انگیز منصوبے کو ڈیزائن کر رہے ہوں گے، ان میں سے اکثر منصوبہ ساز پکی عمروں والے ہوتے ہیں۔ سپاہی لیکن سب نوجوان ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں باعزت اور خوشحال زندگی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوں، وہاں محنت کش طبقہ اور بے کار نوجوان بہت آسانی سے نفرت کی جانب مائل ہو جاتے ہیں۔

یہ بات بھی ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ جڑانوالہ میں ہونے والے تشدد سے متاثر ہونے والے بیش تر مسیحی حضرات محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے اکثر سینٹری ورکرز ہیں یا معمولی اجرت پر کام کرنے والے مزدور ہیں۔ ہمارے شہروں میں مسیحیوں کی اکثریت کچی آبادیوں میں رہتی ہے۔ پنجاب میں رہنے والے مسیحیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ ہمیں طبقاتی نظام کی مخالفت پر مبنی سیاست میں حصہ لینا ہو گا۔ بھگت سنگھ جیسی شخصیات اگر آج ہوتیں تو ایسا ہی کرتیں۔ اس مسئلے کا حل ایک ایسی مشترکہ بنیاد تلاش کرنے میں ہے جس کے تحت معاشرے میں حقیقی تبدیلی کا نظریہ جڑیں پکڑ سکے اور نفرت کی سیات کو اکھاڑ کر پھینک دے۔

***

عاصم سجاد اختر کا یہ مضمون انگریزی روزنامے Dawn میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔

مصنّف قائد اعظم یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعت عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما بھی ہیں۔