صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا ذاتی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ کر کے یہ کہنا کہ انہوں نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل اور آفیشل سیکرٹس ایکٹ بل پر دستخط نہیں کیے کیونکہ وہ ان بلوں سے متفق نہیں تھے اور انہوں نے اپنے عملے کو کہا تھا کہ یہ بل پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیے جائیں، پاکستان تحریک انصاف کے اس مقدمے میں حصہ ڈالنے کی کوشش ہے جو عالمی سطح پر پاکستان کے سیاسی اور عدالتی نظام کے خلاف قائم کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے پاکستان کا آئینی نظام دھڑام سے گر گیا ہے۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی سید طلعت حسین کا۔
یوٹیوب پر اپنے وی لاگ میں صدر مملکت کی حالیہ ٹویٹ کا سطر بہ سطر تجزیہ کرتے ہوئے صحافی طلعت حسین نے بتایا کہ صدر مملکت کے پاس مذکورہ بلوں کو غیر مؤثر کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ وہ مقررہ مدت کے اندر اپنے اعتراض کے ساتھ انہیں پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیتے مگر وہ جان بوجھ کر آئین میں مقررہ مدت یعنی 10 دن تک ان بلوں سے متعلق خاموش رہے اور یہ مدت گزرنے کے بعد جب یہ بل قانون کی شکل اختیار کر گئے تو انہوں نے ٹویٹ کر کے پی ٹی آئی کو ایک جھنجھنا دے دیا ہے جسے وہ ملکی اور عالمی سطح پر عوام اور امریکہ سمیت دیگر ممالک کو یہ باور کروانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں کہ پاکستان کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے اور ملک کے آئینی سربراہ بھی اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔
طلعت حسین کا کہنا تھا کہ صدر مملکت قانون سازی سے متعلق آئینی اور قانونی طریقہ کار سے اچھی طرح آگاہ ہیں اور آئین کے آرٹیکل 75 میں قانون سازی سے متعلق جو طریقہ کار مقرر کیا گیا ہے وہ پچھلے 5 سالوں سے اسی کے مطابق قانون سازی میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جب کسی بل پر دستخط نہیں کرنے تو اس بل کو اپنے اعتراض اور دستخطوں کے ساتھ پارلیمنٹ کو واپس بھجوایا جاتا ہے۔ قانون سازی انتہائی اہم نوعیت کا معاملہ ہے جس میں زبانی ہدایات سے کام نہیں چلتا بلکہ لکھ کر ڈاکیومنٹس کی صورت میں ساری کارروائی عمل میں آتی ہے۔ آفیشل سیکرٹس ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے بلوں کے معاملے میں انہوں نے یہ کہہ کر کہ سٹاف کی جانب سے انہیں دھوکے میں رکھا گیا، سیاسی، آئینی اور اخلاقی لحاظ سے نہایت گھامڑ پن کا ثبوت دیا ہے۔
طلعت حسین کے مطابق صدر مملکت نے اپنی ٹویٹ کے آغاز میں ہی لکھ دیا کہ اس بات کا صرف اللہ گواہ ہے کہ میں نے دستخط نہیں کیے، یعنی صدر پاکستان کے پاس کوئی تحریری یا دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہے کہ انہوں نے مذکوروں بلوں پر دستخط کرنے سے انکار کیا تھا۔ اگر یہ معاملہ عدالت میں جاتا ہے تو صدر مملکت اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے میں ناکام رہیں گے۔ صدر مملکت اتنے بھولے نہیں ہیں جیسا کہ وہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھجوانا ہو، پی ڈی ایم حکومت کے وزرا سے حلف لینے کے موقع پر بیمار پڑ جانے کا بہانہ بنانا ہو یا پنجاب کے گورنر عمر چیمہ کو ہٹانے کی سمری کو اپنے پاس روک کے رکھ لینا ہو، صدر مملکت نے کم و بیش ہر معاملے میں اپنے کایاں ہونے اور چالاکی دکھانے کا پورا پورا ثبوت دیا ہے۔ اب وہ صرف یہ کہہ کر نہیں بچ سکتے کہ انہیں عملے کی جانب سے دھوکہ دیا گیا ہے۔ صدر عارف علوی کمزور حقائق کی بنیاد پر کھڑے نظر آتے ہیں بلکہ کنویں میں دھنستے نظر آتے ہیں۔
اپنی ٹویٹ کی اگلی سطور میں صدر مملکت نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس پر ضرور معاف کر دے گا اور ساتھ ہی انہوں نے ان لوگوں سے بھی معافی مانگی ہے جو ان قوانین کے نفاذ سے متاثر ہوئے ہیں۔ طلعت حسین کہتے ہیں کہ جب آپ نے دستخط ہی نہیں کیے اور معینہ مدت کے اندر بل واپس بھجوانے کی ہدایت بھی دے دی تھی تو پھر آپ اللہ تعالیٰ سے کس غلطی کی معافی مانگ رہے ہیں؟ آپ تو معصوم ہیں اور آپ کے ساتھ تو فراڈ ہوا ہے پھر آپ کو معافی مانگنے کی کیوں ضرورت پیش آ رہی ہے؟ آپ کو تو ان لوگوں سے معافی مانگنے کا کہنا چاہئیے جنہوں نے آپ کو دھوکہ دیا ہے۔
لوگوں سے معافی مانگنے کے پیچھے صدر مملکت کا یہ ادراک کارفرما ہے کہ وقت پر یہ بل واپس نہ بھجوانے پر یہ قوانین بن چکے ہیں۔ یعنی صدر مملکت کو یہ بھی احساس ہے کہ ان کی غفلت کی وجہ سے یہ بل قوانین کا روپ دھار چکے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انہیں نہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کی ضرورت تھی اور نا ہی ان لوگوں سے جو ان قوانین کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔
خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما عاطف خان نے صدر مملکت کی اس ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ دیکھ لیں پاکستان میں آئین کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ اس پر امریکہ کی جانب سے کوئی بیان آنا چاہئیے۔ عاطف خان کی ٹویٹ پر طلعت حسین کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی عالمی سطح پر امریکہ، اور بعض یورپی ملکوں کے سامنے یہ مقدمہ پیش کرنے میں سرگرم ہے کہ جج ہمایوں دلاور کی سیشن عدالت ہو یا پھر صدر پاکستان کا دفتر، ہر جگہ آئین کی حکمرانی ختم ہو کر رہ گئی ہے اور پاکستان کا آئینی نظام دھڑام سے گر گیا ہے۔ یہاں ہر کوئی دباؤ میں ہے۔ صدر مملکت نے جان بوجھ کر ان بلوں کے قانون بن جانے کے بعد ٹویٹ کر کے پی ٹی آئی کے اس مقدمے کو مضبوط کرنے میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور بین الاقوامی میڈیا کو متاثر کرنے کے لئے یہ ٹویٹ کیا ہے۔