جمعہ کا دن یوں تو ساری امت مسلمہ کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے مگر پاکستانی سیاست میں اس دن کو خصوصی اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ جمعہ کے دن میاں نواز شریف کو پاناما کیس میں سزا سنائی گئی تھی۔ جمعہ کے دن عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کیا اور اب پھر جمعہ کے دن ہی پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کیا گیا۔
خان صاحب نے اپنے حالیہ خطاب میں قوم کو مایوسی سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کو الیکشن کے ذریعے ایسا سبق سکھایا جائے گا کہ ان چوروں کا نام ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔
خان صاحب کے مطابق پی ڈی ایم حکومت ہارنے کے ڈر سے نئے الیکشن کروانے سے خوف زدہ ہے اس لیے انہیں اندیشہ ہے کہ شاید حکومت اکتوبر 2023 میں بھی نئے الیکشن نہ کروائے۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر خان صاحب نے ملک کے موجودہ حالات کا ذمے دار سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے خلاف پہلے نہیں بولے کیونکہ اس وقت وہ آرمی چیف تھے۔
یہاں ایک اور بات بھی گوش گزار کرتا چلوں کہ خان صاحب کے اس خطاب میں کے پی کے اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ بھی ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد بھی اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے خان صاحب نے سابق آرمی چیف پر چند اور تابڑ توڑ حملے کیے۔
اس خطاب کے بعد جہاں وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ کا یہ بیان سامنے آیا کہ وہ عمران خان کے ہر فیصلے کا ساتھ دیں گے وہیں ان کی طرف سے عمران خان کے سابق آرمی چیف پر تندوتیز جملوں اور الزامات پر بھی اظہار افسوس کیا گیا اور کہا گیا کہ مجھے اپنے ساتھ بٹھا کر جنرل باجوہ پر تنقید کر کے خان نے میرے ساتھ ناانصافی کی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جنرل باجوہ نے پی ٹی آئی کی حکومت میں پی ٹی آئی کی اکثر مقامات پر کافی مدد کی تھی اس لیے ان کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد ان پر تنقید کرنا غیرمناسب ہے۔
اس کے جواب میں عمران خان کی جانب سے ایک دفعہ پھر ریٹائرڈ جنرل باجوہ پر تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ پرویز الہیٰ کا اپنا نکتہ نظر ہے اور میرا اپنا۔ اس کے علاوہ خان صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ پرویز الہیٰ اس وقت میرے ساتھ بیٹھے تھے جب میں نے جنرل باجوہ پر تنقید کی اور اس کے بعد تقریباً ایک گھنٹہ میرے ساتھ رہے جس میں اس وقت انہوں نے مجھے ایک دفعہ بھی نہیں کہا کہ آپ نے ریٹائرڈ آرمی چیف پر تنقید کیوں کی۔
اب اس صورت حال میں میرا نکتہ نظر تو یہ ہے کہ چودھری پرویز الہیٰ کی بات اپنی جگہ کچھ حد تک ٹھیک ہے کہ ملک کے ریٹائرڈ آرمی چیف کو سرعام عوامی تنقید کا نشانہ بنانا مناسب نہیں۔ جب کہ یہ بات بھی درست ہے کہ مسلم لیگ (ق) کا جھکاؤ شروع سے اسٹیبلشمنٹ کی طرف رہا ہے اور وہ اپنے زیادہ تر فیصلے ایسے کرتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ مخالف نہ ہوں، اس لیے وہ اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے۔
دوسری طرف پرویز الہیٰ یہ بھی جانتے ہیں کہ جنرل باجوہ ٹھیک تھے یا غلط تھے مگر اپنی حکومت کے ابتدائی سالوں میں یہی خان صاحب ان کے گن گاتے نہیں تھکتے تھے اور اس وقت وہ بالکل ٹھیک تھے مگر جب ان سے خان صاحب کے اختلافات شروع ہوئے اس وقت سے لے کر اب تک وہ خان صاحب کے نشانے پر ہیں۔ ویسے بھی خان صاحب کو چاہئیے کہ اپنے مخالفین کو ہر وقت للکارتے رہنے کی بجائے عوام کو ان منصوبوں کے بارے میں بتایا کریں جن سے عوام کے لیے آسانیاں پیدا ہوں اور پاکستان کی ترقی ممکن ہے۔
اس صورت حال میں پنجاب اسمبلی کی تحلیل سے متعلق بھی ذہن شکوک و شبہات کا شکار ہے کیونکہ اگر اسٹیبلشمنٹ اس پر راضی نہ ہوئی تو کیا پرویز الہیٰ اس کے خلاف جائیں گے؟
ابھی تک تو پچھلے چند برسوں میں جمعے کے دن ہونے والے سیاسی اعلانات یا فیصلے مستقل بنیادوں پر پایہ تکمیل تک پہنچ کر برکت کا باعث نہیں بن سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسمبلیاں توڑنے کا اعلان پایہ تکمیل تک پہنچ کر ملک کے لیے برکت کا باعث بنتا ہے یا نہیں۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔