Get Alerts

سماجی حقوق کا تحفظ ہر صحافی اور شہری کا بنیادی حق ہے؛ اعجاز مرزا

سماجی حقوق کا تحفظ ہر صحافی اور شہری کا بنیادی حق ہے؛ اعجاز مرزا
آنکھوں میں کئی استفسار لیے گنگناتی ہوئی مسکراہٹ، سادہ سوالوں میں کئی پیچ و خم اور ایک چمکتا ہوا حرف دوستی، سانولے چہرے پر نوکدار مونچھیں، گھونسلے جیسے سفید بال جن میں کئی مہاجر پرندے بسرام کر سکتے ہیں۔ طویل قامت ’جواں سال بزرگ‘ اعجاز مرزا لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے ایک فرد سے دوسرے فرد کی جانب لپکتے ہیں، کبھی گلے ملتے تو کبھی مصافحہ کرتے ہوئے گاہے سرگوشیاں اور گاہے قہقہہ بار، کوئی خاتون دکھائی دی تو ہاتھ جوڑ کر سلام کیا اور دعا دی۔ ہاں اگر شام ڈھل رہی ہو تو محفل کے درمیاں سے اچانک اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’آپ چائے پئیں میں پل بھر میں تسبیح کر آؤں۔‘‘ یہ کہہ کر اوجھل ہو جاتے ہیں۔
اعجاز مرزا ایک ایسا صم بکم ذی نفس ہے کہ اگر اس کے سامنے اسی کے بارے کوئی بلاوجہ اور بے جواز دشنام طرازی بھی کر رہا ہو تو وہ خاموشی اور گہرے انہماک کے ساتھ کچھ یوں دیکھتا جاتا ہے کہ دشنام گو بھی اس کے ہاتھوں شکست خوردہ دکھائی دیتا ہے۔
میں اعجاز مرزا کو اتنے برسوں سے جانتا ہوں جن کا شمار کرنے سے میں قطعی قاصر ہوں کیونکہ میری اس کے ساتھ آشنائی میں نا آشنا لمحوں کے ساتھ ساتھ آنے والے شب و روز بھی شامل ہیں۔جس شخصیت میں اس قدر محبوبیت ہو تو اسے امجد اسلام امجد ٹائپ غزل یا پروین شاکر جیسی نظم میں ہی بیان کرنا ممکن ہوتا ہے۔

دسمبر کا اواخر چل رہا ہے اور لاہور پریس کلب کے انتخابات کا میلہ سج چکا ہے۔ اعجاز مرزا لاہور پریس کلب کے گزشتہ کئی انتخابات میں حصہ لینے والے اپنے دوستوں کے لیے نعرہ زن ہوتا آیا ہے۔ گذشتہ برس اس نے بھی تہیہ کیا تھا کہ اس اکھاڑے میں اترا جائے۔ مگر ’دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف، اپنے ہی ایک دوست سے ملاقات ہو گئی‘ جس نے اسے کہنی مار کر پیچھے کیا اور خود آگے آنا چاہا لیکن وہ منہ کے بل گرا۔

اعجاز مرزا نے کوچہ صحافت میں پرنٹ سے الیکٹرانک تک ہر طور، ہر موسم اور ہر انداز میں کام کیا ہے۔ خبر کے لیے کوئی شارٹ کٹ استعمال نہیں کیا بلکہ خبر کی تہہ میں اترنے کے لیے کئی بار جاں جوکھم میں ڈالی ہے۔

سوال: اعجاز مرزا تم کیوں پُرسکون زندگی چھوڑ کر پریس کلب کے انتخاب میں حصہ لے رہے ہو؟
جواب: عمومی سا جواب تو یہ ہے کہ میرا یہ حق ہے میرا بھی جی چاہا اور فاتحانہ جواب یہ کہ میں ایسا کر دوں گا ویسا کر دوں گا۔ گزشتہ کئی برسوں سے لاہور پریس کلب کی سیاست ’دس بڑوں‘ کے گرد گھوم رہی ہے اور صحافی کالونی، پلاٹس، ایف بلاک، فیز ٹو، ان کے گرد صحافی برادری گھوم رہی ہے جبکہ لاہور پریس کلب کی دیگر ذمہ داریاں اور فرائض پیچھے رہ گئے ہیں۔ لاہور پریس کلب کی ایک منفرد تاریخ ہے اور یہ بڑی خوبصورت جگہ پر واقع ہے۔ میں الزام کی سیاست کا قائل نہیں ہوں، ان تمام صدور اور سیکرٹری صاحبان کو سلام کرتا ہوں جنہوں نے صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کچھ نہ کچھ کیا ہے۔ البتہ سوشل سکیورٹی ہر صحافی کا بنیادی حق ہے، کسی عہدے دار کا اس پر کوئی احسان نہیں ہے۔ اب یہ پلاٹوں کی سیاست ختم ہونی چاہئیے۔

سوال: آپ جیت کر آتے ہیں تو کیا کریں گے؟
جواب: خامیاں جو رہ گئی ہیں، خلا جو باقی ہیں ان کو پُر کرنا ہے۔ لاہور پریس کلب ایک ادارہ ہے۔ سول سوسائٹی، سیاست و معاشرت کے ساتھ اس کا باہمی ربط ہے۔ روزانہ یہاں آنے والوں کی تعداد سینکڑوں سے تجاوز کر رہی ہے۔ پرنٹ سے الیکٹرانک اور اب سوشل میڈیا آ چکا ہے۔ جو کلب کے باہر ہیں وہ اس کے ممبر ہونا چاہتے ہیں۔ ان کو ممبر ہونا چاہئیے مگر ہمیں صحافی اور غیر صحافی میں کوئی تخصیص یا فرق کرنا ہوگا۔ جو لوگ صحافت کو خیرباد کہہ چکے ہیں ان کی سکروٹنی بھی کرنی چاہیئے۔

سوال: آپ یہ سب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
جواب: میں فرد واحد کچھ نہیں کر سکتا بلکہ میں تمام اکائیوں کو ایک نکتے پر متفق کرنا چاہتا ہوں کہ اس ادارے کی خامیوں کو دور کیا جائے اور اس کا انتظام و انصرام زیادہ بہتر طریقے سے ہو۔ لاہور پریس کلب کے اندر موجود کینٹین ،لائبریری، نیٹ کیفے، زیادہ بہتر اور منظم ہو جائے۔ یہ درست ہے۔ تمام گروپس اور ان کے اراکین آپس میں انتہائی اچھے دوست ہیں اس کے علاوہ یوجیز کے عہدیداران ہیں ان کا لاہور پریس کلب کے ساتھ بہت اچھا اشتراک ہے۔ ان کی مشاورت رہتی ہے اور ہونی بھی چاہیئے۔

سوال: آپ کچھ ایسے مسائل یا پروگرامز کی بابت بتائیں جن کے لیے آپ کوشش کریں گے؟
جواب: لاہور پریس کلب کی ایک اعلیٰ معیار کی ویب سائٹ بہت ناگزیر ہے جس کے کئی ایک فیچرز ہوں، سہ ماہی نیوز لیٹر، نیٹ کیفے میں کمپیوٹرز کی تعداد میں اضافہ، لائبریری میں ریسرچ کے لیے ایک مخصوص کارنر اور ریکارڈز کی ترتیب، باقاعدہ لائبریرین۔ یہ بھی کئی دفعہ کہا جاتا ہے کہ ہم اسے ایک فیملی کلب بنائیں گے۔ اس سے مراد محض سنڈے برنچ نہیں ہے اس سے مراد ویک اینڈ پر لاہور پریس کلب میں موجود پارک میں تمام ممبران صحافیوں کے بچوں اور فیملیزکے لیے کچھ نہ کچھ خاص اہتمام کرنا ہے تاآنکہ وہ ناکافی سہولتوں والے پارکوں اور مہنگے ریستورانوں کا رخ کرنے کی بجائے اپنے کلب میں تشریف لائیں اور یہاں انجوائے کریں۔

سوال: آپ آج کی صحافت کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: میڈیا مالکان کی صحافت اور ہے جبکہ کارکن صحافیوں کی صحافت مختلف ہے۔ امیر صحافی بھی ہیں اور غریب و پس ماندہ صحافی بھی ہیں۔ آج ہر بچہ یا بچی ماس کام کا مضمون ہی کیوں پڑھنا چاہتا ہے۔ کیا محض پریس کارڈ یا مائیک کے لیے وہ پُرجوش ہے یا کچھ بدلنے کا عزم رکھتا ہے۔ میرا خیال ہے تربیت یا کیریئر کاؤنسلنگ کا فقدان ہے۔ آج کی تعلیم بہت سارے ڈسپلن کو جاننا ہے محض معاشرتی علوم، تاریخ، صحافت یا اردو اعلیٰ ہمیں تعلیم یافتہ نہیں کرتے ہیں۔

سوال: لاہور پریس کلب کے انتخابات میں آپ کا نعرہ کیا ہے؟
جواب: میرا نعرہ یہ ہے کہ میں جیتنے والوں کے ساتھ رہوں گا، وہ سب میرے دوست ہیں۔ میں ہمیشہ نیک نام جذبوں کا ہم خیال اور ہم نوا رہوں گا۔ ایک شعر ضرور کہوں گا:

؎ اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

طاہر اصغر مصنف و صحافی ہیں ان کی دلچسپی کے موضوعات پروفائل اور آپ بیتی لکھنا ہے۔ وہ جالب بیتی اور منٹو فن و شخصیت کی کہانی کے مصنف ہیں۔ زیر طبع ناول ’’قصہ غوغا غٹرغوں‘‘ ہے ۔موسیقی اور ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔