کیا انگریزی محض ایک زبان ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ دنیا انہی حلقوں کے اردگرد تشکیل دی گئی ہے اور ہر دائرہ اپنی زبان سے پہچانا جاتا ہے۔ پاکستان (اور ہندوستان) میں، نوآبادیاتی تاریخ کے ساتھ انگریزی کو اشرافیہ کی زبان کی حیثیت حاصل رہی ہے، وہ حیثیت جو کبھی برصغیر پاک و ہند میں مغل حکمرانی کے دورمیں اردو کو حاصل تھی۔

کیا انگریزی محض ایک زبان ہے؟

پچھلی گرمیوں کی بات ہے میں لاہور کی برکت مارکیٹ میں ایک جگہ کچھ کھانے کے لیے رکا۔ میرے ساتھ والی میز پر ایک نوجوان لڑکا اور لڑکی انگریزی کی اہمیت کے بارے میں بحث میں الجھے ہوئے تھے۔ میں نے اپنا آرڈر دیا اور ان کی گفتگو سنتا رہا۔ لڑکی اپنے ساتھی کو انگریزی سیکھنے کی اہمیت کے بارے میں قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی، جبکہ لڑکا اس سے اختلاف کر رہا تھا۔ میں نے مداخلت کرنے کا فیصلہ کیا۔

میں نے انہیں اپنی میز پر آنے کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول کر لیا۔ یونیورسٹی انسٹرکٹر کی حیثیت سے اپنا تعارف کرواتے ہوئے میں نے وضاحت کی کہ میں نے انگریزی کی اہمیت پر ان کی گفتگو سنی تھی اور اس کے معنی اور اہمیت کو واضح کرنا چاہتا تھا۔ اس ملک میں رائج اس دلیل کے برعکس کہ انگریزی کسی کی فکری صلاحیت اور علم کی عکاسی نہیں کرتی، میں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ زبان کا معیار، صرف انگریزی ہی نہیں، کسی فرد کے سماجی و ثقافتی پس منظر اور وابستگی کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ کسی کا لہجہ اس شخص کے پس منظر کو ظاہر کرتا ہے۔ اس پہ مجھے یاد آیا کہ برطانوی اداکار روان ایٹکنسن جو مسٹر بین کے نام سے جانے جاتے ہیں، انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں ذکر کیا تھا کہ جب انہیں جنوبی انگلینڈ کا ایک کردار ادا کرنے کے لیے منتخب کیا گیا تو انہیں اپنے لہجے پر کام کرنا پڑا۔ مسٹر بین کا تعلق شمالی برطانیہ میں واقع سکاٹ لینڈ کے ضلع ڈرہم کے ایک قصبے کونسسیٹ سے ہے اور ان کا لہجہ اس کردار کے مطالبے سے بالکل مختلف تھا۔ انگلینڈ کے جنوب میں اپر مڈل کلاس رہتی ہے، جس کا لہجہ زیادہ بہتر ہے۔ اس کے علاوہ میں نے اس نوجوان سے کہا کہ جہاں تک اس خیال کا تعلق ہے کہ انگریزی کسی کی دانشورانہ صلاحیت اور علم کا تعین نہیں کرتی، تو یہ بھی کمزور دلیل ہے کیونکہ مختلف موضوعات پر شائع ہونے والی اشاعتوں کی ایک بڑی تعداد زیادہ تر انگریزی میں ہوتی ہے، جس نے یقینی طور پر ایک بین الاقوامی زبان کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔

تاہم وہ نوجوان اپنے اختلاف پر قائم رہا۔ اس نے دلیل دی کہ اس کا خاندان، جو اس کے مطابق، صوبہ بلوچستان کے ایک دور افتادہ ضلع سے تعلق رکھتا ہے، بہت خوشحال ہے، اور ان میں سے کسی نے بھی مناسب تعلیم حاصل نہیں کی ہے، کسی بھی معیار کی انگریزی پڑھنے یا بولنے کی صلاحیت تو دور کی بات ہے۔ ان کی کاروباری کامیابی انگریزی جاننے یا نہ جانے کی وجہ سے نہیں تھی۔ اس دلیل نے مجھے لاہور کی کاروباری برادری سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں کی یاد دلا دی، اور مجھے یاد آیا کہ میرے بچپن کے کچھ ساتھی اپنی کاروباری کامیابیوں کے باوجود، بہتر تعلیم یا مناسب انگریزی نہ جاننے کی وجہ سے برسوں سے خود کو کتنا محروم محسوس کرتے تھے۔ ان کے جذبات کو سماجی اجتماعات میں چھپانا مشکل ہوتا، جہاں اپنی کاروباری کامیابیوں کے باوجود وہ خود کو کسی بھی علمی گفتگو کے دائرے سے باہر کھڑا پاتے۔

یہ صرف انگریزی زبان کا معاملہ نہیں ہے۔ ہندوستان کے شمال میں مغل شہنشاہوں نے اردو شاعروں اور موسیقاروں کی یکساں سرپرستی کی۔ صدیوں اس سلسلے میں شاہی خزانے سے بیش بہا دولت خرچی گئی جس سے اردو زبان کو پھلنے پھولنے اور نکھرنے میں مدد ملی۔ اس کے نتیجے میں 18 ویں صدی میں میر تقی میر اور اسد اللہ خان غالب جیسے شاعروں کا ظہور ہوا۔ شمالی ہندوستان کے لہجے کو معیاری اردو لہجے کے طور پر سمجھا جانے لگا اور جو لوگ شاہی دربار کے قریب تھے وہ اپنی اردو کے معیار سے پہچانے جاتے تھے۔ لہٰذا اردو صرف ایک زبان نہیں تھی۔ یہ سماجی و ثقافتی وابستگیوں کی نمائندہ تھی۔ یعنی اس سے کسی کی سماجی حیثیت کا تعین ہوتا تھا۔

یہی بات کسی بھی زبان کے لیے درست ہے۔ زبان کا معیار کسی شخص کے ثقافتی پس منظر اور سماجی حیثیت کا تعین کرتا ہے۔

میں نے یہ بات اس نوجوان تک پہنچانے کی کوشش کی۔ آپ جس معیار کی زبان بولتے ہیں، آپ کا لہجہ، بہت سے حلقوں کے لئے پاسپورٹ کا کام کرتا ہے۔ کیا آپ کو 1980 کی دہائی کا برطانوی کامیڈی شو مائنڈ یور لینگویج یاد ہے؟ اس شو میں آکسفورڈ کے گریجویٹ انگریز مسٹر براؤن کی انگریزی زبان کی کلاس میں مختلف ثقافتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس پروگرام میں 'مزاح' ان لہجوں اور الفاظ کی غلط ادائیگی و استعمال کے ذریعے پیدا ہوتا ہے جو وہ سب کلاس میں بولتے ہیں۔ 1980 کی دہائی کے دوران برطانیہ میں تارکین وطن کی بڑی تعداد میں آمد کے بعد ان کے انگریزی لہجے سماجی سرزنش کا نشانہ بن گئے۔ برطانوی ٹیلی ویژن پر اس طرح کے مزاحیہ شوز کو برطانوی سرزمین پر موجود غیر ملکیوں کی قیمت پر 'لہجے کے لحاظ سے آزمائش' قرار دیا جانے لگا جو مقامی لوگوں کی طرح الفاظ ادا نہیں کر سکتے تھے۔

کیا ہم نے پاکستان میں ایسا تجربہ نہیں کیا؟ جو لوگ اردو یا یہاں تک کہ پنجابی الفاظ مختلف انداز میں بولتے ہیں انہیں بھی کبھی طنزیہ مسکراہٹ یا اصلاح کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ دیکھتے ہوئے کہ کوئی شخص اپنے ارد گرد سے زبان سیکھتا ہے، وہ اپنے اردگرد بولی جانے والی زبان کو اپناتا ہے۔ دنیا، یعنی معاشرے دائروں پر مشتمل ہیں؛ خاندان، محلے، سکول، یونیورسٹیاں۔ یہ ادارے صرف علم حاصل کرنے کے لئے نہیں ہیں۔ وہ سماجی و ثقافتی انجمنوں کے نمائندے ہیں۔ ان حلقوں کے اندر کسی کی سماجی اور سیاسی شناخت تشکیل دی جاتی ہے۔ لہٰذا، کسی اعلیٰ یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے یہ فرق پڑتا ہے کہ آپ کو ان کے گروپ کا رکن سمجھا جاتا ہے، اس دائرے اور اس ثقافت کا حصہ۔ اس کا رنگ آپ کی زبان اور لباس سے جھلکتا ہے اور اس سے تعین ہوتا ہے کہ آپ کس طرح کے لوگوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

یہ کہنا سیاسی طور پر مشکل ہو سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا انہی حلقوں کے اردگرد تشکیل دی گئی ہے اور ہر دائرہ اپنی زبان سے پہچانا جاتا ہے۔ پاکستان (اور ہندوستان) میں، نوآبادیاتی تاریخ کے ساتھ انگریزی کو اشرافیہ کی زبان کی حیثیت حاصل رہی ہے، وہ حیثیت جو کبھی برصغیر پاک و ہند میں مغل حکمرانی کے دورمیں اردو کو حاصل تھی۔