جنرل ضیاالحق کے قریبی ساتھیوں میں سے شامل جس شخص کو افغانستان پر روس کے حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے مجاہدین کا نی ورک تشکیل دینے کا سہرا دیا جاتا ہے، وہ دنیا بھر کی اُن ہزاروں شخصیات میں سے ایک ہیں جو سوئٹزرلینڈ کے ایک سرکردہ بینک (کریڈٹ سوئس) سے خفیہ بینکنگ ڈیٹا کے لیک ہونے سے بے نقاب ہوئے ہیں۔
انگریزی اخبار ڈان میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 'سوئس راز' کے نام سے موسوم یہ بہت بڑا ذخیرہ جرمن اخبار 'زیتو چتشائے تونگ' کو ایک وہسل بلوور (کسی ادارے کا راز فاش کرنے کرنے والے) نے فراہم کیا تھا اور منشیات کی اسمگلنگ، منی لانڈرنگ اور بدعنوانی کے لیے بدنام کلائنٹس کو بے نقاب کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
دنیا بھر میں ڈیٹا کی چھان بین کرنے والے صحافیوں کے ایک نیٹ ورک، آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) کے مطابق اکاؤنٹس جن کی نشاندہی ممکنہ طور پر گڑ بڑ والے اکاؤنٹس کے طور پر ہوئی ان میں 8 ارب ڈالر کے اثاثے موجود ہیں۔
مذکورہ انکشافات حکام کے ساتھ مشکوک اکاؤنٹس نکالنے کے وعدے کی خلاف ورزی میں بینک کی جانب سے درکار نگرانی کی ناکامی ظاہر کرتے ہیں۔
ڈیٹا ان اکاؤنٹس کا احاطہ کرتا ہے جو 1940 سے لے کر 2010 کی دہائی تک کھلے تھے لیکن بینک کی موجودہ کارروائیوں کا نہیں۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے ساتھ تعاون کرنے والے کئی ممالک کے سینئر انٹیلی جنس افسران اور ان کی اولاد نے بھی کریڈٹ سوئس میں رقم چھپا رکھی تھی۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 'پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ کی حیثیت سے جنرل اختر عبدالرحمٰن خان نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں مدد کے لیے امریکا اور دیگر ممالک کی جانب سے مجاہدین کو اربوں ڈالر کی نقد رقم اور دیگر امداد فراہم کرنے میں مدد کی'۔
اخبار کے مطابق لیک ہونے والا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ جنرل اختر کے تین بیٹوں کے نام پر 1985 میں اکاؤنٹ کھولا گیا، حالانکہ جنرل کو کبھی امدادی رقم کی چوری کرنے کے الزامات کا سامنا نہیں رہا اور کچھ برس بعد اس اکاؤنٹ میں موجود رقم 37 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی۔
او سی سی آر پی کی ایک رپورٹ زیادہ مخصوص تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ افغانستان میں روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین جنگجوؤں کے لیے سعودی عرب اور امریکی فنڈنگ سی آئی اے کے سوئس بینک اکاؤنٹ میں جائے گی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 'اس عمل میں آخری وصول کنندہ پاکستان کا انٹر سروسز انٹیلی جنس گروپ (آئی ایس آئی) تھا، جس کی قیادت عبد الرحمٰن اختر نے کی تھی'۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ '80 کی دہائی کے وسط تک اختر عبدالرحمٰن افغان جہادیوں کے ہاتھوں سی آئی اے کی نقد رقم حاصل کرنے میں ماہر تھے تقریباً اسی وقت ان کے تینوں بیٹوں کے نام پر کریڈٹ سوئس میں اکاؤنٹ کھولے گئے'۔
او سی سی آر پی کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کریڈٹ سوئس میں اختر خاندان کے دو اکاؤنٹس میں سے ایک، جو کہ ان کے تینوں بیٹوں کا مشترکہ تھا، یکم جولائی 1985 کو کھولا گیا تھا اور اسی برس امریکی صدر رونالڈ ریگن اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ کہ مجاہدین کے لیے دی جانے والی رقم کہاں جارہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سال 2003 اس اکاؤنٹ کی کم از کم مالیت 50 لاکھ سوئس فرانک (اس وقت 37 لاکھ ڈالر) تھی، دوسرا اکاؤنٹ جنوری 1986 میں اکیلے اکبر کے نام پر کھولا گیا، جس کی مالیت نومبر 2010 تک 9 ملین سوئس فرانک(اس وقت 92 لاکھ ڈالر) سے زیادہ تھی۔
تاہم اختر عبدالرحمٰن خان کے ایک بیٹے نے پروجیکٹ کے نمائندے کو کہا کہ یہ معلومات 'درست نہیں' اور 'اندازے' ہیں۔
اس لیک افشا ہونے والوں کی فہرست میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم اور مصر کے سابق حکمران حسنی مبارک کے دو بیٹے اور وینزویلا کے افسران بھی شامل ہیں جو طویل عرصے سے جاری بدعنوانی کے اسکینڈل میں پھنسے ہوئے ہیں۔
او سی سی پی آر کے مطابق اعداد و شمار سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ دنیا بھر سے 15 انٹیلی جنس شخصیات، یا ان کے قریبی خاندان کے افراد کے کریڈٹ سوئس میں اکاؤنٹس ہیں۔
اس حوالے سے مزید انکشافات آنے والے دنوں میں متوقع ہیں کیونکہ زیادہ سے زیادہ اعداد و شمار عام ہو جائیں گے۔