دھاندلی زدہ انتخابات کی ساکھ پر سیاہ حاشیے لگ چکے ہیں

انتخاباتی ساکھ کے تابوت میں آخری کیل لاہور کے دو صحافیوں رائے ثاقب کھرل اور عمران اشرف کی مبینہ طور پر وائرل ہونے والی ویڈیو نے ٹھونک دیا جس میں رائل پارک کے ایک پرنٹنگ پریس میں جعلی بیلٹ پیپرز کی چھپائی کی جا رہی ہے۔ یہ پریس مبینہ طور پر مسلم لیگ ن کے کسی بندے کا ہے۔

دھاندلی زدہ انتخابات کی ساکھ پر سیاہ حاشیے لگ چکے ہیں

8 فروری کو جو انتخابات منعقد ہوئے ہیں ان کی ساکھ تو منعقد ہونے سے پہلے ہی خراب تھی مگر اب سیاہ حاشیے بھی لگنے شروع ہو گئے ہیں۔ یہ انتخابات وطن عزیز کے شاید واحد انتخابات ہیں جو منعقد ہونے سے پہلے ہی متنازعہ ہو چکے تھے۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف سے بلے کا نشان چھین لیا گیا، پھر ان کے امیدواروں کو اغوا کرنا، کاغذات نامزدگی مسترد کرنا، بلکہ چھین لینا اور الیکشن سے چند روز قبل پاکستان کے مقبول ترین سیاست دان عمران خان کو تین بے بنیاد قسم کے مقدمات میں سزا یافتہ قرار دے گیا، جس نے قبل از انتخابات دھاندلی کی بنیاد رکھ دی تھی۔ پھر فروری کے انتخابات کے نتائج نے ڈھونگ کا پول بھی کھول دیا۔ رات 10 بجے تک جیتنے والوں کے نتائج روک دیے گئے۔ اس دوران چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اپنے دفتر سے پر اسرار طور پر نکلے اور 3 گھنٹے کہیں غائب رہے۔ اس دوران الیکشن کمیشن نے نتائج روکے رکھے۔ پھر 5 گھنٹے بعد جب دوبارہ نتائج آنے شروع ہوئے تو جیتنے والے ہارنا شروع ہو گئے۔

پچھلے چند روز سے اوپر تلے چار ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے ان خراب ساکھ والے انتخابات پر سیاہ حاشیے لگ چکے ہیں۔ پہلے جمعیت علماء اسلام کے مولانا فضل الرحمان ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں خوب بولے بلکہ دل کھول کر بولے۔ انہوں نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کیا اور سابقہ جرنیلوں قمر جاوید باوجوہ اور فیض حمید کے خلاف دل کھل کر دشنام طرازی کی۔ وہی باتیں کیں جو عمران خان پچھلے دو سال سے کر رہے ہیں۔ مولانا کا دکھ یہ ہے کہ اگر انتخابات میں آصف علی زرداری، نواز شریف اور شہباز شریف کو فاتح قرار دیا گیا، ان کی جماعتوں کو جتوایا گیا تو میرے ساتھ کیوں یہ سلوک روا رکھا گیا؟ مولانا فضل الرحمان کی جماعت کا خیبر پختونخوا سے صفایا ہو گیا۔ مولانا ڈیرہ اسماعیل خان سے اپنی آبائی نشست ہار گئے۔ بلوچستان کے علاقے پشین سے جیتنے میں کامیاب رہے تو ان حالات میں مولانا کے اس انٹرویو نے بھونچال برپا کر دیا ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اس کے بعد راولپنڈی کے سابقہ کمشنر لیاقت علی چٹھہ نے اعتراف جرم کر کے ایسا تلاطم برپا کر دیا جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ لیاقت چٹھہ نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر بھی دھاندلی کا براہ راست الزام لگایا۔ حیرت انگیز طور پہ لیاقت چٹھہ نے عسکری ادارے پر کوئی الزام نہیں لگایا، بلکہ سب کچھ اپنی ذات پر لے لیا ہے۔ پھر فافن کی رپورٹ بھی منظر عام پر آ گئی جس نے انتخابات کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کر دی ہے۔ سندھ میں جی ڈی اے جبکہ بلوچستان میں چار قوم پرست جماعتوں کا اتحاد دھاندلی کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔

انتخاباتی ساکھ کے تابوت میں آخری کیل لاہور کے دو صحافیوں رائے ثاقب کھرل اور عمران اشرف کی مبینہ طور پر وائرل ہونے والی ویڈیو نے ٹھونک دیا جس میں رائل پارک کے ایک پرنٹنگ پریس میں جعلی بیلٹ پیپرز کی چھپائی کی جا رہی ہے۔ یاد رہے یہ ویڈیو ابھی تک رائے ثاقب کھرل اور عمران اشرف نے خود جاری نہیں کی۔ یہ دونوں لاہور کے مستند صحافی ہیں۔ ان کی ساکھ شاندار ہے۔ دونوں لاہور میں ایک جگہ کھانا کھا رہے تھے، وہاں ان کو ایک شخص ملا جس نے ان کو بتایا کہ رائل پارک میں جعلی بیلٹ پیپرز کی اشاعت ہو رہی ہے۔ رائے ثاقب کھرل اور عمران اشرف نے جو اصل عکس بندی کی ہے اس میں مبینہ طور پر اس پرنٹنگ پریس کے انچارج سے بات چیت بھی شامل ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ یہ پرنٹنگ پریس مسلم لیگ ن کے کسی بندے کا ہے۔

جب رائے ثاقب کھرل اور عمران اشرف یہ ریکارڈنگ کر رہے تھے تو انہوں نے محسوس کیا کہ ادھر حالات بگڑنے کا اندیشہ ہے تو دونوں نے ایک قابل اعتماد بندے کو جو وہاں موجود تھا، اپنے موبائل دے کر کہا کہ ہماری کار کے پاس جا کر کھڑے ہو جاؤ۔ پھر اس بندے کے موبائل سے وہ ریکارڈنگ کی جو اب وائرل ہو رہی ہے۔ اصل فوٹیج تو عمران اشرف اور رائے ثاقب کھرل کے موبائل میں ابھی تک موجود ہے جو ان کے ٹی وی چینلز جہاں وہ جاب کرتے ہیں، انہوں نے چلانے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ ویڈیو اب تک دونوں صحافیوں نے اپنے یوٹیوب چینلز، ٹوئٹر اور فیس بک اکاؤنٹس پر بھی جاری نہیں کی۔ یہ وائرل ویڈیو وہ ہے جو وہاں موجود اس بندے کے موبائل فون سے بنائی گئی ہے۔ ان چار واقعات نے ان انتخابات کی تباہ شدہ ساکھ پر سیاہ حاشیے لگا دیے ہیں۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔