یادیں بھی کیسی عجیب سی چیز ہوتی ہیں۔ یک دم ستانے لگ جاتی ہیں۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے، میرے پہلو میں بیٹھ کر، پر اعتماد نظروں سے، زور دار آواز سے تم کہا کرتے تھے کہ "کوئی پوچھے تو کہنا خان آیا تھا"۔ غرور اور عشق میں چور بلند و بانگ نعرہ لگاتے تھے "خان کسی کو نہیں چھوڑے گا"۔ اور اس کے ساتھ ہی زوردار قہقہہ بھی۔ اس قہقہے میں یقین محکم کی جھلک صاف نظر آتی تھی۔
مجھے تمہاری اس ادا پر رشک آتا تھا اور کبھی کبھی ترس بھی کہ کیسی پریوں کی دنیا میں رہتے ہو۔ کچھ معلوم نہیں، مگر پھر بھی یقین سے بھرے ہو تم۔ ٹکے کا پتا نہیں مگر پھر بھی پر امید ہو تم۔ عشق اور محبت، غیر مشروط ہوا کرتی ہے، تمہاری باتیں سن کر احساس ہوتا تھا۔ سب یاد ہوتی جا رہی ہیں تمہاری باتیں۔
یاد ہے اک روز دور سے چلتے آ رہے تھے، کچھ گنگنا رہے تھے۔ قریب آئے تو کانوں میں آواز ٹھیک سے پڑی۔ کچھ مزیدار سا تھا۔ ہاں، شاید عطااللہ عیسی خیلوی کا گانا تھا۔ یاد نہیں آ رہا، بڑا مزیدار سا تھا۔ کچھ ناچنے جیسا تھا۔ اب تم وہ بھی نہیں گاتے۔ بدلے بدلے سے لگتے ہو۔ کم کم ملتے ہو۔ کھل کر بولتے بھی نہیں۔ چپ چپ سے رہتے ہو۔
یاد آتا ہے، سب کل ہی کی باتیں ہیں۔ پر یوں لگتا ہے جیسے صدیاں بیت گئی ہوں۔ یاد ہے جب بھی خان صاحب کی کوئی تقریر سنتے تھے تو اگلے ہی روز مل کر کہا کرتے تھے کہ واہ کیا تقریر ہے۔ مل کر ڈھیروں ڈھیر باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک ایک مصرعہ من و عن یاد کیا ہوتا تھا تم نے۔ بے حد خوشی کے ساتھ بتاتے تھے کہ فلاں فلاں بات نے میری آنکھیں کھول دیں۔ کیا خوب بولتے ہیں وہ، کیا دکھتے ہیں وہ، ان کے منہ سے نکلا ہر لفظ، ہر فقرہ علم ہے علم۔ وگرنہ تو کسی کو کچھ پتا ہی نہیں تھا۔ یہ سن کر میں سر پکڑ لیتا تھا۔ تمہارے لئے حقائق کا دارومدار ان کی تقریروں کے سوا کچھ نہ رہا تھا۔
یاد ہے بات کرتے کرتے مجھ سے لڑتے تھے جب میں کہتا تھا کہ یار ان تقریروں پہ نہ جاؤ، ان تقریروں میں استعمال ہوئی پُرتاثیر آواز اور حسین چہرے کے آسیب میں نہ آؤ، اپنی معلومات درست کرو، تقریر میں بتائی معلومات غلط ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مگر تم اس بات پر بھنا جاتے تھے۔ ہاں مجھے یاد ہے، تمہیں بہت ناگوار گزرتا تھا۔ جواباً تم اونچی آواز میں سابق حکمرانوں کو گالیاں دینا شروع کر دیتے تھے۔
خیر۔ یادیں بھی کیسی عجیب چیز ہوتی ہیں۔ جھٹ پٹ سب ہوا ہو کر یاد بن جاتا ہے اور پتا بھی نہیں چلتا۔ "بسنتیاں" عجیب سا ہی مکافات عمل ہو گیا ہے۔ سر دھڑ کی بازی لگا کر جس ہجوم کے ذریعے نااہلیوں کا کھیل کھیلا۔ وہ پورا ہجوم ہی نااہلی کی ذلت آمیز تصویر بن چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس مکافات عمل کا نقصان، تکلیف، اذیت عوام کیوں اٹھا رہی ہے؟ تو جواب نہایت سادہ ہے۔ کس نے کہا تھا بنا تحقیق کے، حقائق سے متضاد رخ اختیار کر کے شخصیت پرستی، حسن پرستی اور تقریر پرستی کرو؟ کسی نے نہیں۔ اب ناچو، یوٹیوب پر عطااللہ عیسی خیلوی کا گانا آج بھی پڑا مل جائے گا۔ لگاؤ، آواز اونچی کرو، آنکھیں بند کرو، ٹھمکا لگاؤ۔ بس یوں ہی آنے والی نسل کو بھی تقریری معلومات بتاؤ، بیڑا غرق کراؤ، کہ پھر کبھی راہ راست کا ذکر، شعور کی سمجھ، حقائق کی ضرورت، غور و فکر کا عمل اس قوم سے پیدا ہی نہ ہو پائے۔ کہ یہ سب ایک گالی بن چکا ہے۔
تمہارے لئے نارمل ہونا یہی ہے کہ ناچو، ہر بات پہ ناچو، آواز پہ ناچو، تقریر پہ ناچو، جھوٹ پہ ناچو، سچ پہ ناچو۔ جس کا طبلہ جتنا شور مچاتا ہے بسنتی اسی کی تال پہ زیادہ ناچتی ہے۔ اسی طرح یہاں ایک طبلچی روز تقریر "بجاتا" ہے، "بسنتیاں" اس پر روز ناچتی ہیں۔ کیونکہ معاملہ علم کا نہیں۔ معاملہ حسن پرستی اور عشق و مستی کا ہے۔ قبر و کفن پہ ہی رکے گا۔