پاکستان کے سابق آل راؤنڈر محمد حفیظ نے ملک میں کھلاڑیوں کے لیے پالیسی پر توجہ نہ دینے پر عمران خان کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ایک انٹرویو میں حفیظ نے اسے ایک بڑا سوالیہ نشان قرار دیا کہ ’سپورٹس مین‘ عمران خان کی قیادت میں کھلاڑیوں کے لیے ابھی تک کوئی واضح وژن نہیں ہے،حفیظ نے کہا کہ میں ذاتی طور پر موجودہ حکومت سے مایوس ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی انفراسٹرکچر قائم نہیں کیا گیا ہے جہاں ہمارے ملک میں کھلاڑی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں، یہ میرے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ہمارے وزیر اعظم ایک سپورٹس مین ہیں اور اگر ان کے دور میں کھیلوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی تو یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
حفیظ نے عمران خان کے ڈپارٹمنٹل کرکٹ ختم کرنے کے فیصلے پر بھی سوال اٹھایا اور اس معاملے کو اٹھانے پر اپنے ساتھیوں مصباح الحق اور اظہر علی کی تعریف کی۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے ان پر فخر ہے کہ انہوں نے ایک بڑا قدم اٹھایا اور خلوص دل سے دوسروں کے لیے تشویش کا اظہار کیا، پاکستان ابھی ایک فلاحی ریاست نہیں ہے اور محکمے بہت سے کھلاڑیوں کی مالی ضروریات کو پورا کر رہے تھے، ابھی تک کوئی متبادل بھی نہیں ملا۔ حفیظ نے پی سی بی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ فرنچائز لیگز سے کھلاڑیوں کو واپس نہ بلائے کیونکہ انہیں بھاری معاہدے ملتے ہیں اور انہیں واپس بلانے سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے کہا کہ لیگز سے کھلاڑیوں کو واپس بلانے سے پلیئرز کے پورٹ فولیو پر دھچکا لگا، حال ہی میں بی بی ایل سے پاکستانی کھلاڑیوں کو واپس بلایا گیا، میں چاہتا ہوں کہ پی سی بی اس عمل کو دوبارہ دیکھے۔ جب کھلاڑیوں کو این او سی مل جائے تو اسے مکمل طور پر کھیلنا چاہیے کیونکہ اس کی اور پاکستان کی ساکھ داؤ پر لگ جاتی ہے۔ ماضی میں حفیظ اور پی سی بی کے درمیان اختلافات کی خبریں آتی رہی ہیں اور حفیظ کا کہنا تھا کہ پی سی بی اس معاملے پر ان کے موقف سے ناخوش ہے۔
حفیظ نے حال ہی میں انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لیتے ہوئے بتایا کہ وہ ابتدائی طور پر 2020ء کے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے بعد اپنے کیریئر کو ختم کرنے کا ارادہ کر رہے تھے لیکن ٹورنامنٹ 2021ء میں چلا گیا، اس لیے انہوں نے خود کو مزید ایک سال کھیلنے کے لیے تیار کیا۔ حفیظ نے مزید کہا کہ میں اپنے کیرئیر کو فخر اور اطمینان کے ساتھ ختم کرنا چاہتا تھا۔
2020ء کا ورلڈ کپ اگلے سال چلا گیا اور میں نے ورلڈ کپ جیتنے والے سکواڈ کا حصہ بننے کا ارادہ کیا تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ حفیظ کا آخری میچ آسٹریلیا کے خلاف سیمی فائنل تھا جو پاکستان نے قریبی مقابلے کے بعد ہارا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے سیمی فائنل ہارنے کے بعد فیصلہ کیا تھا اور بنگلہ دیش میں ٹیم کا حصہ نہ بننے کا انتخاب کیا تھا جہاں میں نے سلیکٹرز کو نوجوان کو منتخب کرنے کو کہا تھا۔
دنیا کے ٹاپ بلے بازوں میں شمار ہونے کے باوجود حفیظ اب بھی سوچتے ہیں کہ بابراعظم کو بطور کپتان مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ حفیظ کا کہنا تھا کہ بابراعظم اب بھی اپنے لیے بہت سی چیزیں حاصل کرنے میں بہت پیچھے ہیں، اگر وہ خود کو مزید بہتر بنائے تو ٹیلنٹ اور فٹنس کو دیکھتے ہوئے وہ پاکستان کے لیے کھیلنے والے عظیم ترین بلے بازوں کی فہرست میں جگہ بنالے گا۔
حفیظ مستقبل میں کسی بھی حیثیت میں پاکستان کی خدمت کے لیے تیار ہیں لیکن کرکٹ بورڈ میں نوکری کے متلاشی کے طور پر پیسے کے پیچھے نہیں بھاگیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں مستقبل میں پاکستان کی خدمت ضرور کروں گا لیکن میں نوکری کا متلاشی نہیں ہوں، اس لیے میں یہ پیسے کے لیے نہیں کروں گا اور اس کے پیچھے نہیں بھاگوں گا۔ حفیظ نے ایک تیز گیند باز کے طور پر شاہین شاہ آفریدی کی بہتری کی تعریف کرتے ہوئے اختتام کیا اور وہ پی ایس ایل 7 میں ان کی کپتانی میں کھیلنے کے منتظر ہیں۔