رات کی تاریکی میں سنایا گیا فیصلہ، اور جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات

رات کی تاریکی میں سنایا گیا فیصلہ، اور جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے انکشافات اور حنیف عباسی کے خلاف عدالتی فیصلے نے آج اس بات پر مہر ثبت کر دی ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو ناحق سزائیں سنائی گئیں اور انہیں محض انتخابات میں مسلم لیگ نواز کی مہم چلانے سے روکنے کے لئے ضمانت نہیں دی گئیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ آنے والے چند دنوں میں اعلیٰ عدلیہ کے چند جج حضرات بھی اسی قسم کے حقائق پیش کرنے جا رہے ہیں جو آج جسٹس شوکت عزیز نے پیش کیے۔

رات کی تاریکی میں سنایا گیا فیصلہ

دوسری جانب ٹاؤٹ شیخ رشید کی یقینی شکست دیکھتے ہوئے عدالتی فیصلے کی مدد سے ان کے مد مقابل حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔ جس مضحکہ خیز انداز میں رات کی تاریکی میں یہ فیصلہ سنایا گیا اسے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ قانون بھاری جوتے والوں کے وزن تلے سسکتا ہوا ایک نحیف و لاغر مریض ہے جسے اپنی مرضی کی دوا کھلا کر زبردستی زندہ رکھا جاتا ہے اور من پسند فیصلے حاصل کر لیے جاتے ہیں۔

مسلم لیگ نواز اب مغربی پاکستان کی عوامی لیگ ہے

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایفیڈرین کیس میں حنیف عباسی کے علاوہ باقی تمام ملزموں کو شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا گیا جبکہ حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا دے کر یہ ثابت کیا گیا کہ مسلم لیگ نواز اب مغربی پاکستان کی عوامی لیگ ہے۔ چلیے، اگر آپ سانحہ ڈھاکہ کو دہرانا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی۔ اگر 71 میں شیخ مجیب اور اس کی جماعت کے عوامی مینڈیٹ کو طاقت سے کچلنے کے ہولناک نتیجے سے بھی آپ کچھ نہیں سیکھے تو یقیناً آپ ایسا ہی ایک اور تجربہ کرنا چاہتے ہوں گے۔

آج پنجاب سے منظور پشتیں جیسے نعرے بلند ہو رہے ہیں

بہر حال جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جو انکشافات کیے ہیں وہ نئے ہرگز بھی نہیں ہیں اور عوام کی اکثریت اس حقیقت کو جانتی ہے کہ انتخابات میں عمران خان کو جتوانے کے لئے پورے ملک کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔ اس وقت پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف شدید نفرت اور غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ وہ پنجاب جسے اسٹیبلشمنٹ کا مضبوط ترین حلیف تصور کیا جاتا تھا وہاں سے آج منظور پشتین والے نعرے بلند ہوتے سنائی دے رہے ہیں۔ عدلیہ کی ساکھ اس قدر مجروح ہو چکی ہے کہ اب اعلیٰ عدلیہ کو کٹھ پتلی قرار دیا جا رہا ہے۔

اب کی بار سیاسی بت کی بجائے سیاسی کوزہ گر سے پالا پڑا ہے

محض عمران خان کو جتوانے اور نواز شریف کو نیچا دکھانے کی خاطر، سیاسی صنم خانوں کو بنانے اور ڈھانے والے ہاتھوں کو اب کی بار سیاسی بت کی بجائے سیاسی کوزہ گر سے پالا پڑا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب کی بار دن دہاڑے اور کھلے عام وہ سازشیں کرنا پڑیں جو کبھی رات کی تاریکی اور پردوں کے پیچھے چھپ کر کی جاتی تھیں۔

بدترین پری پول رگنگ کے باوجود تحریک انصاف 90 سے زائد نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکی

شاید ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسٹیبلشمنٹ یہ جنگ ہار چکی ہے۔ انتخابات میں بدترین پری پول رگنگ کے باوجود تحریک انصاف 90 سے زائد نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکی جبکہ مسلم لیگ نواز تمام تر دھاندلی کے باوجود 70 کے لگ بھگ نشستیں حیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ یہ انتخابات مشرف کے 2002 میں کروائے گئے عام انتخابات کی مانند ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ اب کی بار عوام سیاسی انجینئرنگ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی دکھائی دیتی ہے۔ عدلیہ راؤ انوار اور عابد باکسر جیسے اجرتی قاتلوں کو ضمانت دینے کے بعد جسٹس منیر کے دور سے بھی زیادہ تاریک دور میں جا پہنچی ہے۔ میڈیا پر عائد سینسر شپ نے ضیاالحق دور کی یادیں تازہ کروا دی ہیں۔ ایسے میں کوئی احمق ہی ہو سکتا ہے جو انتخابات کے نتائج کو سو فیصد درست مان سکے۔

ستر برس سے قائم شدہ یہ تسلط اب آخری سانسیں لے رہا ہے

دراصل اس نظام کو یرغمال بنانے والوں کو اقتدار پر اپنی کمزور ہوتی ہوئی گرفت کو برقرار رکھنا اب مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تمام تر اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے عوامی طاقت رکھنے والی جماعتوں اور رہنماؤں کو دبانے کی کوشش جاری و ساری ہے۔ ستر برس سے قائم شدہ یہ تسلط اب آخری سانسیں لے رہا ہے اور ملک میں ایک بہت بڑی تقسیم واضح دکھائی دے رہی ہے۔ ایک جانب وہ طبقہ ہے جو اسٹیبلشمنٹ اور اس کے بیانیوں پر ایمان کامل رکھتا ہے جبکہ دوسری جانب وہ طبقہ ہے جو جمہوری بالادستی پر یقین رکھتا ہے اور ستر سالہ گلے سڑے بیانیوں کو ماننے سے انکاری ہے۔

یہ تقسیم ایک مکالمے کے رجحان والے معاشرے میں تو مثبت قرار دی جا سکتی ہے لیکن انتہا پسندی کے شکار معاشرے میں یہ تقسیم سماج کے ڈھانچے کی بنیادوں کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ اگر آپ کو پنجاب سے اٹھنے والی نفرت کی لہر آج بھی دکھائی نہیں دے رہی تو شاید آپ بصیرت سے محروم ہو چکے ہیں۔ اگر آپ کی سماعتوں میں ان نعروں کی آواز نہیں گونج رہی جو لاہور اور اب راولپنڈی سے آپ کے خلاف بلند ہوئے ہیں تو آپ بہرے ہو چکے ہیں۔

راؤ انوار، عابد باکسر اور احسان الله احسان جیسے اجرتی قاتل اور دہشت گرد ہی ہمیشہ ہمارے قومی اثاثے رہیں گے؟

ہمارا مسئلہ ہے ہی یہی کہ اندھے اور بہرے گروہ ریاست کو گذشتہ ستر برس سے بزور بازو یرغمال بنائے بیٹھے ہیں اور اس بات پر مصر ہیں کہ صرف ان کی ہی کہی گئی ہر بات کو حرف آخر تصور کیا جائے۔ حضور اگر غلطی سے آپ کے ہاتھ میں ماچس آ ہی گئی ہے تو کم سے کم اپنے ہی گھر کو جلانے سے تو پرہیز کیجئے۔ کیا یہ طے ہے کہ ہر دفعہ آپ نے گھر پھونکنے کے بعد ہی یہ سمجھنا ہے کہ آپ بذات خود مسئلے کا ایک بہت بڑا حصہ ہیں؟ کیا یہ طے ہے کہ راؤ انوار، عابد باکسر اور احسان الله احسان جیسے اجرتی قاتل اور دہشت گرد ہی ہمیشہ ہمارے قومی اثاثے رہیں گے؟ کیا یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ شیخ رشید اور عمران خان جیسے مہروں کے دم پر اکیسویں صدی میں عوام کو بیوقوف بنایا جاتا رہے گا؟ اگر یہ سب طے شدہ ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ آپ جبر سے تاریکی شب کو سماج پر مسلط رکھیں گے تو ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔

اب کی بار سب کچھ بہہ جائے گا

شاید آپ تاریکی شب کی طوالت کو تو بڑھا سکتے ہیں لیکن سحر کے اجالوں کو روشن ہونے سے روک نہیں سکتے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے امیر کارواں رہنے کے شوق میں دانستہ تکمیل سفر نہ ہونے دینے سے سفر کٹ جائے گا تو آپ غلطی پر ہیں۔ آپ بہت تیزی سے 71 کی جانب واپس بڑھ رہے ہیں۔ خدانخواستہ اگر پھر کوئی سانحہ رونما ہو گیا تو پھر اب کی بار سب کچھ بہہ جائے گا۔ ہم ایک اور سانحہ ڈھاکہ جیسے واقعے کو دوہرانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔